احمر بلال صوفی
اس حوالے سے ڈان نے سابق وفاقی وزیر قانون اور ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے صدر احمر بلال صوفی سے بات چیت کی جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سوال: کیا ہندوستان یطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کرسکتا ہے؟
جواب: معاہدے کے تحت ہندوستان کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کردے، معاہدے کے آرٹیکل 12(4) کے مطابق معاہدہ صرف اس صورت میں ہی منسوخ ہوسکتا ہے جب ہندوستان اور پاکستان دونوں اس کی منسوخی کے لیے تحریری طور پر رضامند ہوں۔ دوسرے لفظوں میں معاہدے کی منسوخی کا متن دونوں ملکوں کی مشاورت سے تیار ہونا اور پھر دونوں ملکوں کی جانب سے اس کی توثیق ہونا ضروری ہے۔ معاہدے میں یکطرفہ طور پر منسوخی کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ساتھ ہی یہ معاہدہ غیر معینہ مدت کے لیے ہے لہٰذا یہ وقت کی قید سے بھی آزاد ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کسی خاص حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ ریاستوں کے درمیان ہے اور ایسا نہیں کہ حکومت تبدیل ہونے سے یہ ختم ہوجائے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے یکساں طور پر واجب العمل ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی شق موجود نہیں لہٰذا اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنا درحقیقت اس کی خلاف ورزی ہوگی۔
اگر ہندوستان یکطرفہ طور پر معاہدے کو منسوخ،معطل یا اس سے دستبردار ہونے کا اعلان کرکے اس پر عمل درآمد روکتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا اس نے پاکستان کو پانی کی فراہمی کو روکنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہندوستان اسے معاہدے سے دستبرداری یا منسوخی کہے گا جب کہ پاکستان اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے گا۔
سوال: اگر ہندوستان نے انتہائی اقدام اٹھالیا تو کیا معاہدے میں ثالثی کے حوالے سے کوئی شق ہے جسے استعمال کیا جاسکے؟
جواب: سندھ طاس معاہدے میں ثالثی کے حوالے سے ایک شق موجود ہے، معاہدے کے آرٹیکل 9 کی ذیلی شقوں ایف اور جی میں اس حوالے سے تفصیلات درج ہیں جس کے مطابق اگر کسی بھی فریق کو کچھ تحفظات ہیں وہ پہلے کمیشن کے پاس جائے گا،پھر کسی غیر جانب دار ماہر کے پاس اور پھر ثالثی کے فورم پر جاسکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے مطابق اگر ہندوستان یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کا کوئی اقدام آرٹیکل 9 کے تحت تنازع کے زمرے میں آتا ہے تو اسے ذیلی شقوں ایف اور جی کے مطابق ہی عمل کرنا ہوگا۔ ہندوستان از خود یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
اگر ہندوستان معاہدے کو واقعی منسوخ کردیتا ہے تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہوگا کہ وہ اس سے احتراز کررہا ہے اور ایسی صورت میں آرٹیکل 9 کی ذیلی شقوں ایف اور جی میں وضع کردہ تنازع کے خاتمے کا مکینزم بھی کسی کام کا نہیں رہے گا اور پاکستان کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
کیوں کہ یہ آرٹیکل معاہدے کے حوالے سے کسی تنازع سے متعلق ہے اور معاہدے پر عمل درآمد یا اس کی کارکردگی اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔چونکہ سندھ طاس معاہدے میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو اس کے دورانیے اور معطلی سے متعلق ہو لہٰذا ایسی کوئی جگہ بھی نہیں جہاں پاکستان معاہدے کی بحالی کے لیے جاسکے۔اس کے علاوہ پاکستان معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ بھی نہیں کھٹکھٹا سکتا کیوں کہ عالمی عدالت انصاف کے تحریری قانون پر ہندوستان کے اعتراضات پاکستان کو اس کے خلاف مقدمہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
دوسرے لفظوں میں پاکستان کے پاس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ہندوستان کو مجبور کرنے کا کوئی پر امن طریقہ باقی نہیں رہے گا۔
سوال: اگر ہندوستان نے پاکستان کی جانب بہنے والے پانی کو روک دیا تو کیا ہوگا؟ اور کیا ہندوستان کا ایسا کرنا چین کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے؟
جواب: پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اگر سندھ طاس معاہدہ نہ ہوتا تو بھی پانی سے متعلق عالمی قوانین کے مطابق دریا کے بالائی علاقوں کے حامل ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ نچلے علاقوں میں پانی کا بہاؤ روک دے۔ اگر ہندوستان ایسا کرتا بھی ہے تو اس کے اس اقدام سے چین کو دریائے برہم پتر کا پانی روکنے کا جواز مل سکتا ہے۔
پانی کی بندش پر غور شروع کرکے ہندوستان نے خود کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے کیوں کہ چینی حکومت بھی اس حوالے سے ہندوستانی اقدام کو دلچسپی سے دیکھ رہی ہوگی۔
سوال: سندھ طاس معاہدہ 1965 اور 1971 کی جنگ کیسے برداشت کرگیا؟
جواب: سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی دو جنگوں اور دیگر تنازعات کے باوجود اب تک اس لیے برقرار ہے کیوں کہ ان میں سے کسی کو بھی بین الاقوامی قوانین کے مطابق جنگ کا درجہ نہیں دیا گیا بلکہ انہیں مسلح تنازعات قرار دیا گیا جو جنگ سے نچلا درجہ ہے۔
جنگ کی صورت میں ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ معاہدوں اور سفارتی تعلقات کو منقطع کردیں اور درحقیقت اگر ہندوستان معاہدے کو منسوخ کرنے کا سوچتا ہے تو وہ خود اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ یہ ایک جنگی یا پاکستان دشمنی پر مبنی اقدام ہے اور اس طرح بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ بھی ہندوستان کے خلاف جوابی اقدام کرے اور یہ اقدام پرتشدد بھی ہوسکتا ہے اور پر امن بھی۔
معاہدے ہمیشہ ریاستوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں نہ کہ حکومتوں کی اور یہ سیاسی ماحول میں آنے والی تبدیلی سے بھی مشروط نہیں ہوتے۔ زیادہ بہتر یہی ہوتا ہے کہ ریاستیں باہمی اعتماد کے ذریعے معاہدوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں تاہم اگر کسی وجہ سے اعتماد کی فضا ختم ہوتی بھی ہے تو یطرفہ طور پر معاہدے کو مسنوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
یہ خبر 27 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی