خواجہ اظہار الحسن اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے—۔ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ 22 اگست کو اللہ کی آزمائش تھی اور یہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔
خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی اطلاع انھیں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے موصول ہوئی اور اُس وقت وہ اسمبلی میں تھے۔
ایم کیو ایم رہنما کے مطابق اس واقعے کے بعد ان کے پاس ملک بدر ہونے، پارٹی بدلنے اور واقعے کی ذمہ داری لے کر معاملات حل کرنے کے سارے آپشن تھے، لیکن ہم نے پارٹی نہیں بدلی اور نہ ہی ملک سے باہر گئے ۔
خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی بدلتے تو بھی قوم فیصلے کو قبول کرتی، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ پُرخطر راستوں پر چلنے کا فیصلہ کیا اور ذمہ داری لی۔
ایم کیو ایم نے آباء و اجداد کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا، شہلا رضا
سندھ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر اور پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے متفقہ قرارداد پیش کرکے اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سندھ کو فخر حاصل ہے کہ ہجرت کرکے آنے والے یہیں رچ بس گئے، لہذا مہاجروں سے کہوں گی کہ اب وہ مہاجر نہیں بلکہ پاکستانی بن کر رہیں'۔
شہلا رضا کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اسی ملک میں جینا مرنا ہے اور یہیں سے آگے بڑھنا ہے اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ہر زبان بولنے والوں کا ساتھ دیا ہے۔
بانی ایم کیو ایم کے خلاف سندھ اسمبلی میں یہ قرارداد گذشتہ ماہ 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے ان کے خطاب کے بعد پیش کی گئی، جس میں الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس پر کارکنوں نے مشتعل ہوکر نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔
مزید پڑھیں:الطاف حسین نے کیا کہا ...
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اورآنسو گیس کا استعمال کیا، اس موقع پر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔
اسی روز الطاف حسین نے امریکا میں بھی کارکنان سے خطاب کیا تھا، جس کی آڈیو کلپ انٹرنیٹ پر سامنے آئی جس میں الطاف حسین نے کہا کہ 'امریکا، اسرائیل ساتھ دے تو داعش، القاعدہ اور طالبان پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے خود لڑنے کے لیے جاؤں گا'۔
بعدازاں پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا،ان رہنماؤں کو اگلے دن رہا کیا گیا۔
دوسری جانب ان واقعات کے بعد رینجرز اور پولیس نے شہر بھر میں کارروائیاں کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سمیت متعدد سیکٹرز اور یونٹس بند کرنے کے ساتھ پارٹی ویب سائٹ کو بھی بند کردیا تھا۔
23 اگست کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا اعلان کیا، بعدازاں پارٹی کی جانب سے اپنے بانی اور قائد سے قطع تعلقی کا بھی اعلان کردیا گیا اور ترمیم کرکے تحریک کے بانی الطاف حسین کا نام پارٹی کے آئین اور جھنڈے سے بھی نکال دیا گیا، اسی روز سے ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی سنبھال لی تھی۔
الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان پر حکومت بانی ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کے لیے ریفرنس برطانیہ بھیج چکی ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق ریفرنس میں برطانیہ سے عوام کو تشدد پر اکسانے اور بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی متفقہ قرارداد منظور ہو چکی ہے، ایوان میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بھی اس قرار داد کی حمایت کی گئی تھی.
یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ دنوں ایسے بینرز بھی لگائے گئے تھے جن میں صرف الطاف حسین کو ہی قائد قرار دیا گیا تھا،ان بینرز پر 'جو قائدِ تحریک کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے' بھی تحریر تھا، ان بینرز کے دو روز بعد کراچی کی شاہراہوں پر بلند مقامات پر بھی چند بینرز دیکھے گئے جن پر ’جوملک کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے‘ تحریر تھا۔