ٹرانزٹ ٹریڈ میں ہندوستان کی شمولیت کا مطالبہ مسترد
اسلام آباد: پاکستان کے اعلیٰ حکومتی عہدے دار نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے ٹرانزٹ ٹریڈ میں ہندوستان کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔
گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر پاکستان نے واہگہ بارڈر کے راستے افغانستان کو ہندوستان سے تجارت کی اجازت نہ دی تو وہ پاکستان کی وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کو روک دے گا۔
اشرف غنی کا یہ بیان برطانوی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان اووین جینکنز کے ساتھ ملاقات کے موقع پر سامنے آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان ہندوستان سے فوجی ہیلی کاپٹر لےگا
بعد ازاں افغان صدارتی دفتر نے نرم موقف اختیار کرتے ہوئے وضاحت جاری کی تھی کہ صدر کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے راستے پاکستان کی وسط ایشیائی ممالک سے تجارت پر کچھ پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
پاکستانی عہدے دار نے بتایا کہ افغان صدر کا یہ بیان دراصل ہندوستان کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھا، کیوں کہ افغان ٹرکس تو پہلے ہی اپنی مصنوعات لے کر انڈیا جاتے ہیں لیکن موجودہ معاہدے کے تحت افغان ٹرکس انڈیا سے کوئی شے واپس پاکستان نہیں لاسکتے۔
مزید پڑھیں:ہرات میں افغان ہند دوستی ڈیم کا افتتاح
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں انڈیا کو اس قسم کی کوئی رعایت دیا جانے ناممکن ہے۔
واضح رہے کہ انڈین وزیر برائے خارجہ امور سشما سوراج نے بھی اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا وزراء کانفرنس کے موقع پر افغانستان پاکستان ٹریڈ اینڈ ٹرانزٹ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے) میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی۔
پاکستانی عہدے دار نے افغان صدر اشرف غنی کے بیان کو سیاسی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ یہ نئی بات نہیں، اشرف غنی نے گزشتہ برس اپنے دورہ انڈیا کے دوران بھی اس طرح کے بیانات دیے تھے اور اب پھر وہ 14 ستمبر کو ہندوستان کے دورے پر جانے والے ہیں۔
وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ وہاں سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے تاہم یہ منصوبہ بندی کی جارہی تھی کہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں تاجکستان کو بھی شامل کرلیا جائے اور اسے سہ فریقی ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ بنادیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران،افغانستان سے تجارتی بندش: تاجروں کو کروڑوں کا نقصان
مبینہ طور پر پاکستان تاجکستان تک پہنچنے کے لیے جنگ زدہ افغانستان کے بجائے کسی اور راستے کے انتخاب پر بھی غور کررہا ہے۔
اس سلسلے میں پاک چین اقتصادی راہداری کو کرغیزستان اور تاجکستان سے منسلک کرنے اور سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن کی راہداری 5 اور 6 کے ساتھ جوڑنے کے لیے چین کی مدد لینے کی بھی تجویز زیر غور ہے جس سے پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک ایک دوسرے سے منسلک ہوجائیں گے۔
افغان صدر اشرف غنی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان اب بیرونی تجارت کے لیے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار نہیں کرتا بلکہ اب اس کے پاس امپورٹ ایکسپورٹ کے دوسرے راستے بھی موجود ہیں۔
ان کا اشارہ اس تجارتی راستے کی جانب تھا جو انڈیا کے تعاون سے تیار کیے جانے والے ایران کے چاہ بہار پورٹ کو افغانستان ملائے گا۔
اسی اثناء میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت بھی زوال کا شکار ہے، بعض اندازوں کے مطابق سرحدی تنازعات کی وجہ سے گزشتہ مہینوں میں تجارت کا حکم 50 فیصد تک کم ہوا ہے۔
گزشتہ ماہ پاک افغان چمن بارڈر 14 روز تک بند رہا تھا جبکہ جون کے مہینے میں طورخم بارڈر ایک ہفتے تک بند تھا۔
سرحدوں کی بندش کی وجہ سے افغانستان کی برآمدات جو زیادہ تر تازہ پھلوں پر مشتمل ہوتی ہیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ میں یہ بات شامل نہیں کہ کوئی بھی شے انڈیا لے جائی جائے یا وہاں سے لائی جائے لیکن پاکستان جذبہ خیر سگالی کے طور پر افغان پھلوں کو واہگہ کے راستے انڈیا جانے دیتا ہے‘۔
یہ خبر 11 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی