پاکستانی انجینئر کا تیار کردہ کم قیمت وینٹی لیٹر
اگر آپ کو ہسپتال جانے کا موقع ملے تو وارڈ کےاندر موت جیسی خاموشی میں صرف سانس لینے میں دشواری کے سبب مریضوں کی کراہیں سنائی دیں گی۔
ان میں سے بیشتر مریض بچے ہوتے ہیں جو موسمِ سرما میں نظام تنفس کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں نمونیا قابل ذکر ہے، جبکہ ہر بستر کے اردگرد ان کے لواحقین کھڑے نظر آئیں گے جو اپنے پیاروں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف پریشان ہوتے ہیں بلکہ مسلسل اس کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی طرح ان کے مریض کی تکلیف میں کمی آسکے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملیں گے جہاں مریضوں کے لواحقین ان کی سانسوں کی بحالی کے لیے مشینوں پر جھکے ہوئے ہوں گے اور تازہ ہوا مریض کے پھیپھڑوں تک پہنچانے کی کو شش میں مصروف ہوں گے۔
ڈاکٹر مجیب الرحمان بھی ان میں سے ایک تھے۔
ان کے بقول 'میرے بھتیجے کو بیماری کے سبب ساہیوال سے لایا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت بگڑتی چلی گئی مگر ہسپتال میں اس کی سانسوں کو جاری رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر دستیاب نہیں تھا۔ ہمیں مریض کی سانسوں کی روانی کے لیے ایک عارضی انتظام کے طور پر ambu bag دیا گیا۔ مجھ سمیت وہاں موجود 3 افراد باری باری اس بیگ کو دباتے تاکہ آکسیجن کی مطلوبہ مقدار بچے کے پھیپھڑوں تک پہنچتی رہے'۔
صوبہ بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں طبی سہولیات اور وینٹی لیٹرز کی کمیابی کوئی نئی بات نہیں۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں صوبائی حکومت نے ایک کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک رپورٹ جمع کرائی، جس میں کہا گیا ہے کہ صوبہ کے سرکاری ہسپتالوں میں مجموعی طور پر 885 وینٹی لیٹر موجود ہیں جن میں سے کم از کم 14 فیصد یا 122 وینٹی لیٹر خراب ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ان مشینوں میں سے بیشتر کو مقامی طور پر ٹھیک کرایا گیا تاہم اہم پرزہ جات اور تکنیکی سہولیات کے فقدان کے باعث مشینیں بہت کم وقت تک ہی ٹھیک رہ سکیں ، مشینوں کی مکمل بحالی کے لیے ان پرزہ جات کو بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑے گا۔
وینٹی لیٹرز کی عدم دستیابی کے سبب اب تک متعدد قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور میں گزشتہ برس دسمبر میں مشینوں کی خرابی اور ان کے کام نہ کرنے کے سبب ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں 10 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔
اس وقت جبکہ فعال وینٹی لیٹر کی تعداد بہت کم ہے، تو زندگی بچانے والی اس مشین تک رسائی بیشتر افراد کے لیے چیلنج سے کم نہیں، خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں میں، جہاں ambu bags استعمال کیے جارہے ہیں۔
وہ شخص جو کوئی میڈیکل بیک گراؤنڈ نہیں رکھتا، یہ بات نہایت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ سانسوں کی روانی کے لیے مینوئل طریقہ درحقیقت تباہ کن ہو سکتا ہے۔ انسانی جسم میں موجود دل ایک پرفیکٹ انجن کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ خون کی روانی کو برقرار رکھتے ہوئے پھیپھڑوں تک تازہ آکسیجن فراہم کرنے اور اسے حرکت میں رکھنے کا سبب بھی ہے تاہم جب دل پھیپھڑوں تک مطلوبہ مقدار میں آکسیجن فراہم نہ کر سکے تو صورتحال خطرناک ہو جاتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جب وینٹی لیٹر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
بیشتر نجی ہسپتالوں میں بستروں کی شرح کے لحاظ سے وینٹی لیٹرز کی صورتحال قدرے اطمینان بخش ہے تاہم چونکہ یہ ہسپتال کاروباری نکتہ نظر سے کام کرتے ہیں لہذا وہاں اس سہولت کی فراہمی کے لیے خطیر رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس کی ادائیگی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
ڈاکٹر مجیب کا بھتیجا تین دن اور تین راتوں تک سرکاری ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملا اور اس عرصے کے دوران وینٹی لیٹر دستیاب نہیں ہو سکا۔
ڈاکٹر مجیب الرحمان حال ہی میں معروف امریکی ادارے کیلفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر واپس آئے اور اب وہ ملک میں خود کو بے بس محسوس کرنے لگے۔
ان کا کہنا تھا 'ایک انجینئر کے طور پر سرکاری ہسپتال کے وارڈز میں صورتحال کا قریب سے مشاہدہ کرنا میرے لیے نہایت تکلیف دہ امر تھا کہ ہم 21 ویں صدی میں ہونے کے باوجود کس صورتحال کا شکار ہیں اور میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں یا تو خاموش تماشائی کی طرح سمجھوتہ کر کے بیٹھ جاؤں یا مسئلے کے حل کے لیے اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤں'۔
ڈاکٹر مجیب الرحمان نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔
ڈاکٹر مجیب ایجاد شدہ چیز کو دوبارہ ایجاد کرنے کے خواہاں نہیں تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ ایسی پراڈکٹ تیار کی جائے جو انسانی نقائص سے پاک ہو اور اسے Ambu bag کے متبادل کے طور مریضوں کے سانسوں کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔
لہذا انہوں نے Ambu Bag کے خودکار استعمال کے طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔
ڈاکٹر رحمان کا کہنا تھا 'کسی جانی پہچانی چیز کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے، اگر ہم کچھ بالکل مختلف تیار کرتے ہیں تو اسے قبول کرانا بھی چیلنج سے کم نہیں ہوتا'۔
انہوں نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (UET) کے مکینیکل انجیئنر کی مدد سے اس کام کا آغاز کیا ، سب سے پہلے منصوبے پر کاغذی کارروائی کا آغاز ہوا اور پھر مشین کے ڈیزائن پر توجہ دی گئی۔