’36 ہزار سے زائد ٹیکس نادہندگان کا سراغ‘
اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سینیٹ کو کو آگاہ کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے رواں برس 36 ہزار 936 ٹیکس نادہندگان کا سراغ لگایا جن پر 87 اب 93 کروڑ روپے واجب الادا تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر میاں عتیق شیخ کے سوال پر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے تحریری جواب پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ ٹیکس نادہندگان پر مجموعی طور پر 106.82 ارب روپے واجب الادا تھے جن میں سے ایف بی آر نے 18.89 ارب روپے وصول کرلیے۔
صوبوں کے اعتبار سے اعداد و شمار بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ 21 ہزار 370 ٹیکس نادہندگان کا سراغ لگایا گیا جبکہ خیبر پختونخوا میں ٹیکس نادہندگان کی تعداد 10 ہزار 776 تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں ٹیکس نادہندگان کی تعداد سندھ اور بلوچستان میں موجود ٹیکس نادہندگان سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کی ٹیکس آمدنی مقررہ ہدف سے زیادہ
وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے اسلام آباد میں 3 ہزار 437 ٹیکس ڈیفالٹرز کا سراغ لگایا جبکہ سندھ میں ٹیکس نادہندگان کی تعداد محض 1351 ہے۔
ایف بی آر کو اسلام آباد کے ٹیکس نادہندگان سے مجموعی طور پر جتنی رقم وصول کرنی ہے اس کا حجم پنجاب اور دیگر تمام صوبوں کے ٹیکس دہندگان سے واجب الوصول رقم سے زیادہ ہے۔
اسحٰق ڈار کے مطابق ایف بی آر کو اسلام آباد میں ٹیکس نادہندگان سے 52.16 ارب روپے وصول کرنے ہیں جبکہ پنجاب سے 37.84 ارب، سندھ سے 11.43 ارب، خیبر پختونخوا سے 2.62 ارب اور بلوچستان سے 2.76 ارب روپے وصول کرنے ہیں۔
ایف بی آر اب تک اسلام آباد سے 9.87ارب روپے، پنجاب سے 5.37 ارب، سندھ سے 3.11 ارب ، خیبر پختونخوا سے ایک کروڑ 79 لاکھ 10 ہزار روپے اور بلوچستان سے 50 کروڑ 70 لاکھ روپے ٹیکس وصول کرچکا ہے۔
مزید پڑھیں:ایف بی آر نے آن لائن ٹیکس وصولی کا آغاز کردیا
ٹیکس نادہندگان کا سراغ لگانے کیلئے استعمال ہونے والے طریقہ کار کے حوالے سے اسحٰق ڈار نے بتایا کہ تھرڈ پارٹی ذرائع جیسے موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز، تعلیمی اداروں، پراپرٹی رجسٹرار آفسز، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز، ہائوسنگ سوسائٹیز، بجلی کی تقسیم کا رکمپنیوں، آٹو موبل مینوفیکچرنگ کمپنیز اور ودہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹس سے اعداد و شمار حاصل کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس اسٹیٹمنٹس میں ظاہر کیے جانے والے اعداد و شمار کی دوبارہ جانچ کرنے کے بعد ان افراد کا سراغ لگایا گیا جو مالی لین دین تو کرتے ہیں لیکن ٹیکس رول میں شامل نہیں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ ایف بی آر کی ایجنسی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کا کام ٹیکس فراڈ اور عدم ادائیگیوں کی تحقیقات کرنا ہے جو اپنی رپورٹ ایف بی آر کو پیش کرتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر کے سوال پر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بتایا کہ 31 مئی تک کے مطابق اندرونی قرضوں کا حجم 13430 ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 5834ارب روپے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جائیداد کی قیمتوں کا تعین اسٹیٹ بینک نہیں ایف بی آر کرے گا
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چوہدری تنویر خان کے سوال پر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے نیشنل بینک آف پاکستان(این بی پی) سے قرض حاصل کرنے والے افراد اور کمپنیوں کے نام ظاہر کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ قرض خواہوں کی نجی معلومات کو بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962 کے سیکشن 33 اے کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران کوئی قرض معاف نہیں کرایا گیا اور نیشنل بینک کی جانب سے اس دوران 360 ارب روپے کے قرض جاری کیے گئے۔
علاوہ ازیں سینیٹ میں 6 ستمبر 1965 کے شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے قرار داد پڑھ کر سنائی جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
یہ خبر 7 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی