دنیا

مضر صحت خوراک سے طلبہ کی ہلاکت، پرنسپل کو 17 سال کی قید

جولائی 2013 میں ہندوستان کی ریاست بہار میں مضر صحت کھانا کھانے سے اسکول کے 23 معصوم بچے ہلاک ہوگئے تھے، پروسیکیوٹر

نئی دہلی: ہندوستان کی عدالت نے مضر صحت کھانا کھانے سے ہلاک ہونے والے بچوں کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پرائمری اسکول کی پرنسپل کو 17 سال قید کی سزا سنادی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکول کی پرنسپل پر مذکورہ کیس میں گذشتہ ہفتے فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ 2013 میں ہندوستان کی مشرقی ریاست بہار کے ضلع سارن میں سرکاری اسکول کے بچوں کو مفت کھانا دیا گیا تھا، جس سے تقریبا 50 بچے متاثر ہوئے تھے۔

پروسیکیوٹر سمیر مشرا نے بتایا کہ 'مینا دیوی کو قتل کے جرم میں 10 سال اور اقدام قتل کے جرم میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے'۔

عدالت نے مینا دیوی کو 3 لاکھ 75 ہزار روپے نقد جرمانہ بھی ادا کرنے کو کہا ہے یہ رقم واقعے میں بچ جانے والے متاثرہ بچوں کے ورثہ میں تقسیم کی جائے گی۔

پروسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ وہ پیر کے روز ہونے والی عدالتی کارروائی اور پرنسپل کو دی جانے والی سزا سے مطمئن ہیں لیکن شواہد کی کمی کے باعث مجرمہ کے شوہر ارجن رائے کو عدالت کی جانب سے دی جانے والی بریت کو چیلنج کریں گے۔

رائے پر الزام ہے کہ اس نے مذکورہ مضرصحت کھانا بنانے میں استعمال ہونے والا تیل فراہم کیا تھا۔

تفتیش کاروں نے عدالت کو بتایا تھا کہ رائے نے کھانے میں استعمال ہونے والے تیل کو اسٹور میں کیڑے مار ادویات کے ساتھ رکھا ہوا تھا اور یہ تیل بعد ازاں اسکول کو مفت خوراک بنانے کیلئے فراہم کیا گیا۔

واضح رہے کہ 16 جولائی 2013 کو دھرماساتی گاندامان کے گاؤں میں قائم پرائمری اسکول میں فراہم کیے جانے والے مضر صحت کھانے کے باعث 4 سے 12 سال کی عمر کے 23 بچے ہلاک اور دیگر 24 کی حالت غیر ہوگئی تھی۔

ایک مقتول بچے کے والد کا کہنا تھا کہ 'ہم چاہتے تھے کہ دونوں ملزمان کو سزا سنائی جائے تاہم عدالت نے پرنسپل کے شوہر کو بری کردیا'۔

یاد رہے کہ 2001 سے دنیا کے سب سے بڑے مفت کھانا فراہم کرنے کے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے ہندوستان کے 12 کروڑ اسکول جانے والے بچوں کو خوراک فراہم کی جارہی ہے۔