اسٹیٹ بینک کا سونے کی درآمد کو فارمولائز کرنے پر زور
کراچی: اسٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ سے سونے کی درآمد کو قانونی بنانے کے ساتھ ساتھ سہولیات کے غلط استعمال روکنے پر زور دیا ہے۔
دآرمدی پالیسی کے مطابق سونے کے زیورات کی درآمد پر کوئی رقم ادا نہیں کی جاتی, جس میں صرف زیور کو تیار کی جانے والی لاگت کی رقم اسٹیٹ بینک کو ادا کی جاتی ہے۔
پاکستان سے بڑھتی ہوئی سونے کی اسمگلنگ کی بڑی وجہ ہندوستان میں ڈیوٹی فیس کا 10 گناہ زائد ہونا ہے، اس کے علاوہ مصنوعی زیورات کی برآمدات بھی سونے کے زیورات کی برآمد کو متاثر کرتی ہے۔
دیگر طریقوں کے مطابق سونے کی درآمد کرنے والے تاجر قیمت ادا کرنے کیلئے اپنی غیر ملکی زر مبادلہ کا سہارہ لیتے ہیں، جس میں ان کو سونے کی درآمدی قیمت ادا کرنے کیلئے بینک، فارن ایکسچینج یا کسی قسم کی حوالہ چینل کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
وزارت خزانہ کو بھیجے گئے خط کے مطابق اسٹیٹ بینک کا موقف ہے کہ سونے کی درآمد کو فارمولائز کیا جانا چاہئیے جو رقم کی ادائیگی انٹر بینک مارکیٹ کے ذریعے کی جائے گی، خط کے مطابق یہ بھی تجویز پیش کی گئی ہے کہ موجودہ طریقوں کو ختم کردیا جائے گا۔
سونے کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس عائد کرنے سے سونے کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کو روکا جا سکے گا، درآمد کیے گئے سونے کو زیور میں تبدیل کرکے برآمد کرنے کی صورت میں تاجر کو ایک بار ڈیوٹی ریگولائز کرانا لازمی ہوگا۔
نگرانی کیلئے دو بینکوں کو سونے کی درآمد کیلئے لائسنس جاری کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔
اسٹیٹ بینک کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی سونے کی درآمد کیلئے کوٹہ مقرر کرے گی، جس میں منتخب بھاری سرمایہ رکھنے والے تاجر ہی لائسنس کی نیلامی میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک کا ماننا ہے کہ ان مجوزہ اقدامات سے مقرر کردہ بینک درآمدی معاملات دیکھنے کے ساتھ لیٹرز آف کریڈٹ کا اجرا بھی کریں گے۔
جبکہ انٹربینک مارکیٹ کے بدولت سینٹرل بینک کے ذریعے بھی سونے کی برآمدی قیمت ادا کی جاسکے گی ساتھ ہی بذریعہ قانونی چینلز کے بھی اپنی رقوم بھجوا سکتے ہیں۔
خریدوفروخت کو قانونی دائرے میں لائے جانے سے زرمبادلہ کے حوالہ کے ذریعے استعمال کو روکا جا سکے گا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وزارت خزانہ کو دیگر ممالک میں رائج اس نظام کے حوالے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان، چین، سنگاپور اور ترکی کے سینٹرل بینک نے درآمد کی رقوم کی ادائیگی قانونی چینلز کے ذریعے یقینی بنا لی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے وزارت خزانہ کووزارت تجارت ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان سے اس معاملے پر بات کرنے کیلئے زور دیا ہے۔
دوسری جانب آل پاکستان جیم مرچنٹس اینڈ جیولر ایسوسی ایشن (APJMJA) کے چئیرمین حبیب الرحمٰن نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے وزارت خزانہ کو بھیجے گئے خط میں گمراہ کن معلومات دی گئی ہیں، فراہم کی گئی معلومات مفروضوں اور غلط معلومات پر مبنی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت موجودہ ڈیوٹی اسٹرکچر کے مطابق سونے کی درآمد پر ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس اور 2500 روپے فی کلوگرام کسٹم ڈیوٹی ادا کی جاتی ہے، جس میں شیڈول VI کے مطابق سیلز ٹیکس سے استشنیٰ حاصل ہے۔
اسٹیٹ بینک مبینہ طور پر Mode-I کے تحت برآمدی قیمت کی ادائیگی حوالہ چینل کے ذریعے کی جاتی ہے جو انٹر بینک پر ایکسچینج ریٹ کیلئے زور ڈالتی ہے۔
حبیب الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے دوران درآمد Mode-I کے ذریعے نہیں کی گئی، جس کا ثبوت محکمہ شماریات کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں موجود ہے۔
انہوں نے ایکسچینج ریٹ پر پڑنے والے اثرات کی سختی سے تردید بھی کی کہ حکومت کی جانب سے برآمد پر کسی قسم کی کوئی ڈیوٹی یا ٹیکس جمع نہیں کیا گیا جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کس قسم کی درآمد نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ پانامہ سے لے کر پاکستان کے دارالحکومت تک کی تمام دنیا کی تحقیقات کرے جبکہ امریکا، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ سے متعلق بھی تحقیقات کرے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ Mode-II کے مطابق 2 ستمبر2013 میں اسٹیچوری ریگولیٹری آرڈر 760 کے لاگو ہونے کے بعد سے گزشتہ تین سال میں کسی قسم کی بے ضابطگی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ٹڈاپ سونے کے درآمد اور زیورات برآمد کے عمل پر کڑی نظر رکھتا ہے، تمام لین دین کے معاملات 'جولری پاس بک' میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں، جو کے 'ٹڈاپ' سے تصدیق شدہ ہوتے ہیں جس سے کسٹم حکام اور بینک کا بھی تعلق ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ سونے کی برآمد اور درآمد سے متعلق تمام تر معلومات متعلقہ حکام کو فراہم کی جاتی ہیں، تو کیسے ہندوستان سونا اسمگل کیا جاسکتا ہے؟
انہوں نے اس بات کی جانب بھی نشاندہی کی کہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہندوستان سے سونا اسمگل کرنے کا الزام لگا رہے ہیں جبکہ ہندوستان کی ایجنسیوں یا میڈیا کی جانب سے پاکستان سے اسمگلنگ کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھاری سرمایہ رکھنے والے تاجروں کیلئے سونے کی درآمد کیلئے کوٹہ سسٹم متعارف کرانے سے متعلق حبیب الرحمن کا کہنا تھا کہ یہ نظام ماضی میں بھی لایا گیا تھا جس کا مقدمہ عدالت میں التواع کا شکار ہے، یہ نظام چند مخصوص عناصر کو فائدہ پہنچانے کیلئے لایا جا رہا ہے۔
انھوں نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے سونے کی درآمد پر دس فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ بھی کیا کہ اس وقت صرف ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس اور 2500 فی کلو کسٹم ڈیوٹی عائد ہے۔
انہوں نےدعویٰ کیا کہ کئی سالوں سے سونا درآمد نہیں کیا گیا۔
حبیب الرحمن کا کہنا تھا کہ سونا بہت مہنگا ہے اور 10فیصد کسٹم ڈیوٹی کا مطلب 5 لاکھ فی کلو ہے، اس کاروبار میں 2 سے 3 فیصد منافع ہی حاصل ہوتا ہے، کون سونا درآمد کرے گا اور اس پر 10 فیصد پیسے بھی ادا کرے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق پاکستان 150 ٹن سالانہ سونے کی مارکیٹ تھا، اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ پر خرچ کرنے کیلئے 150 ٹن مالیت کی رقم درکار ہوگی، ہندوستان سونے کی درآمد پر سالانہ 40 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔
یہ رپورٹ 17 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی