پاکستان

قیام پاکستان سے قبل بنی کراچی کی درزی کی دکان

پاکستان چوک پر قیام پاکستان سے قبل بنی عمارتوں کے درمیان موجود ایک کمرے پر محیط دکان مسعود الحسن چلاتے ہیں۔

کراچی کے علاقے پاکستان چوک پر قیام پاکستان سے قبل بنی عمارتوں کے درمیان موجود ایک کمرے پر محیط دکان مسعود الحسن چلاتے ہیں جس کا نام 'ٹیلر ڈی پاک' ہے۔

انہوں نے اپنا چشمہ صاف کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد محمد ابراہیم نے 1930 کی دہائی میں کاروبار شروع کیا اور کوئٹہ کے اسٹاف کالج کے برابر میں پہلی دکان بنائی۔

'1935 کے زلزلے کے بعد ہم نے بمبئی میں اپنی دکان بنائی اور پھر تقسیم کے فوراً بعد کراچی میں اور اس کے بعد سے سرنگی بلڈنگ میں ہی ہماری دکان ہے۔

پاکستان چوک پر واقع ٹیلر ڈی چوک

درزی کے کاروبار کا حصہ بننے کی روداد سناتے ہوئے حسن نے بتایا کہ ابتدائی طور پر وہ مسلح افواج کے ساتھ کام کرتے تھے، ہم ان کے ساتھ جایا کرتے تھے، ان کے یونیفارم سیا کرتے تھے اور بالآخر جنگ کے بعد میرے والد نے اپنی دکان بنانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت پاکستان کا کوئی واضح تصور نہیں تھا، ہم نے دکان کا نام ٹیلر ڈی پاک دراصل 'پاک صاف لوگوں کا ٹیلر یا مسلمان ٹیلر' کی طرز پر رکھا تھا۔

حسن کے مطابق نئے آزاد شدہ پاکستان میں کاروبار بہت اچھا شروع ہوا اور پھر انہیں ایک عام ٹیلر سے اپنی لائن تبدیل کرنا پڑی جو خصوصی طور پر سرجیکل گاؤن، لیب کوٹ وغیرہ جیسی چیزیں سیتا ہو۔

'اسی کی سیدھ میں موجود ڈی جے سائنس کالج کے اساتذہ یہاں آیا کرتے تھے اور وہی تھے جنہوں ہمیں یہ لائن اپنانے کا مشورہ دیا اور اس طرح ہم نے لیب کوٹ اور اسکرب تیار کرنا شروع کیے'۔

حسن کی دکان کا ایک اشتہار

'جب ہم 1947 میں یہاں آئے تو یہ بہت خوبصورت خواب جیسا محسوس ہوتا تھا۔ اب یہ ڈراؤنا خواب جیسا لگتا ہے، چیزیں بہت زیادہ بدل چکی ہیں'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب وہ شروع میں کراچی منتقل ہوئے تو اس وقت یہاں زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے لیکن وقت کے ساتھ یہ چیز بدل گئی۔

'چونکہ کراچی اس وقت دارالخلافہ ہوتا تھا تو لہٰذا کئی وزرا کے دفاتر اسی عمارت میں تھے۔ ایک مرتبہ جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو اوپر کی منزلوں پر برٹش کونسل نے اپنا دفتر بنا لیا۔

حسن نے بتایا کہ 60 کی دہائی کے آخر اور 70 کی دہائی کے اوائل میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو یہاں اکثر آیا کرتے تھے۔

'بھٹو صاحب اکثر یہاں آیا کرتے تھے، ان کے ایک دوست علی نواز برابر میں ہی رہتے تھے لہٰذا آپ انہیں اکثر ایک ساتھ دیکھ سکتے تھے'۔

'جب وہ وزیر اعظم بنے تو سول ہسپتال کا دورہ کرنے کے بعد وہ اس علاقے میں آ گئے۔ واپسی پر انہوں نے اپنے دوست سے ملنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ یہ بہت مضحکہ خیز تھا کیونکہ پروٹوکول ایک طرف چلا گیا اور بھٹو صاحب اپنے دوست کی طرف آ گئے۔ بدقسمتی سے ان کے دوست تو وہاں نہیں تھے لیکن وہ ہماری دکان پر آئے اور ہم سے ملاقات کی'۔

کمپیوٹر پر ریکارڈ محفوظ کرنے کے اس ڈیجیٹل دور میں حسن اپنا ریکارڈ کاغذ پر محفوظ رکھتے ہیں۔

پاکستان چوک کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حسن نے اس خوبصورت دور میں کھو گئے جب چوک محض ایک درخت ہوتا تھا۔ اس علاقے میں توسیع اور تبدیلیاں اس وقت کی گئیں جب 1980 کی دہائی میں ایک رکن صوبائی اسمبلی یہاں سے الیکشن کیلئے کھڑے ہوئے تھے۔

'جب ہم اس علاقے میں آئے تو یہ بہت پرامن اور یہاں بہت خاموشی ہوتی تھی۔ شام میں آپ خواتین کو اپنی چاروں اور کھانے کے ساتھ چوک پر جمع ہوتے دیکھتے تھے جو اپنے خاوند، بھائی یا بیٹوں کا انتظار کیا کرتی تھیں'۔

حسن صاحب اب بھی اپنے والد کی جانب سے بنائی گئی ایک کمرے کی دکان میں کام کرتے ہیں۔

'کھانے کے بعد مرد پتے یا دیگر کھیلوں کے لیے دوسری طرف چلے جاتے تھے جبکہ خواتین ایک دوسرے سے باتیں کرتی تھیں۔ وہ دن واقعی بہت بہترین تھے۔'


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔