پاکستان

اغواء ہونے سے کیسے بچا جائے؟

اغواء کی وارداتوں کو سمجھنے کیلئے سی پی ایل سی کے بانی سربراہ جمیل یوسف نے اپنے تجربے کا نچوڑ پیش کردیا۔

2016کو ہائی پروفائل اغواء کے حوالے سے خبروں کا سال کہنا بے جا نہ ہوگا، پانچ برس بعد رواں سال مارچ میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کی بازیابی کی خوش خبری سامنے آئی، مئی کے مہینے میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کی افغانستان سے بازیابی نے خوشی کو دوآتشہ کردیا۔

لیکن ایک جانب جہاں سلمان تاثیر اور علی حیدر گیلانی قید سے رہائی کے بعد سکھ کا سانس لے رہے تھے وہیں دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے بیریسٹر اویس علی شاہ کو اغوا کرلیا گیا اور اب ان کے اہل خانہ کرب میں مبتلا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے لاپتہ

جب اویس علی شاہ کلفٹن میں واقع سپر اسٹور سے باہر نکل رہے تھے تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔

پولیس نے شک ظاہر کیا ہے کہ اویس علی شاہ کو اغواء کار بعض شدت پسندوں کی رہائی کیلئے 'بارگیننگ چپ' کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، بہر حال زیادہ تر کیسز میں تو اغواء کار تاوان کا ہی مطالبہ کرتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں کراچی میں اغواء برائے تاوان کے جن کو بہت حد تک بوتل میں بند کردیا گیا تھا۔

سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی ( سی پی ایل سی) کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 22 جون تک رواں برس اغوا کے 15 واقعات سامنے آئے جبکہ 2013 میں تعداد 174 تھی۔


ہم اغواء کی وارداتوں میں اغواء کاروں اور مغوی کے اہل خانہ کے درمیان معاونت فراہم کرنے والی سی پی ایل سی کے بانی رہنما جمیل یوسف کے ساتھ بیٹھے تھے تاکہ کراچی میں ہونے والی اغواء کی وارداتوں کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکے اور یہ بھی معلوم کیا جاسکے کہ اگر کوئی شخص یا اس کا عزیز رشتہ دار اغواء ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے؟


اغواء کی وارداتیں

1980 کی دہائی میں یہ رجحان تھا کہ اغواء کار ہائی وے پر موجود کسی بھی شہری کو اغوا کرلیا کرتے تھے کیوں کہ یہاں سے انہیں شہر سے نکل جانے میں آسانی ہوتی تھی، لیکن یہ رجحان اب بدل چکا ہے، اب اغواء کار معروف شخصیات کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔

یوسف کا کہنا ہے کہ اغواء کار گاڑی کو دیکھ کر اس کے اندر بیٹھے شخص کی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے ہیں، وہ سوچتے ہیں اگر زیادہ کچھ نہ بھی ملا تو گھر والے گاڑی کو فروخت کردیں گے اور انہیں سات سے آٹھ لاکھ روپے مل جائیں گے۔


تو کیا متوسط طبقے کے افراد اغواء نہیں ہوتے؟

یوسف کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، دولتمند افراد زیادہ نظروں میں آتے ہیں لیکن اغواء کار ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اغوا کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شہباز تاثیر کے اغوا میں ملوث چار ملزمان گرفتار

یوسف نے بتایا کہ میں نے ایسے واقعات پر بھی کام کیا ہے جب ایک رکشا ڈرائیور اور ایک جنرل اسٹور چلانے والے کے بچوں کو اغوا کرلیا گیا تھا۔

یوسف نے بتایا کہ فرق صرف تاوان کی رقم کا ہوتا ہے، جنرل اسٹور کے مالک سے اغواء کار ایک لاکھ روپے مانگتے ہیں اور پھر مذاکرات شروع کردیتے ہیں۔


کیا سیکیورٹی گارڈ ساتھ رکھنا سود مند ہے؟

یوسف کہتے ہیں کہ سیکیورٹی گارڈ اپنے ساتھ رکھنا بالکل فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور یہ اغواء کاروں کو دور رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں تاہم شہر میں ہر شخص گارڈ رکھنے کی حیثیت نہیں رکھتا، اغواء کار ایسے شخص کو ترجیح دیتے ہیں جس کے ساتھ محافظ نہ ہو، وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالیں۔

اگر آپ زیادہ اہم شخصیت ہیں تو اپنے پیچھے ایک گاڑی میں گارڈز کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں، اس سے آپ زیادہ محفوظ ہوجائیں گے، یوسف کہتے ہیں کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اغواء کاروں کے نشانے پر آسکتے ہیں تو بہتر ہے کہ آپ کی گاڑی کے پیچھے سیکیورٹی گارڈز بھی ہوں۔

یوسف نے کہا کہ اپنی ہی گاڑی میں محافظ کو رکھنا اچھا خیال نہیں کیوں کہ فائرنگ کے تبادلے میں آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کیا سیکیورٹی گارڈ رکھنے والے کبھی اغواء نہیں ہوتے؟

یوسف کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ بھی اغواء ہوجاتے ہیں جن کے ساتھ سیکیورٹی گارڈز موجود ہوتے ہیں لیکن اس کی شرح انتہائی معمولی ہے، اگر آپ اغواء کاروں کیلئے انتہائی اہم ہدف ہیں تو وہ پہلے گارڈز سے نمٹیں گے اور پھر آپ کو لے جائیں گے۔


اغواء کار کیسے حملہ کرتے ہیں؟

اغواء کرنے والے عام طور پر دن کی روشنی میں کارروائی سے گریز کرتے ہیں، یوسف نے اپنے تجربے کی روشنی میں بتایا کہ زیادہ تر وارداتیں رات کے اندھیرے میں کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر معاملے میں ایسا ضروری نہیں، بعض اوقات نشانہ ایسا شخص ہوتا ہے جو رات کو آسانی سے نہیں ملتا جیسا کہ اگر اسکول سے کسی بچے کو اغواء کیا جاتا ہے تو صبح یا دوپہر کا ہی وقت ہوتا ہے۔

یوسف کا کہنا ہے کہ عام طور پر چار افراد پر مشتمل گروپ کارروائی کرتا ہے، ایک آپ کی گاڑی کو سنبھالے گا، پیچھے بیٹھے دو اور لوگ آپ کو اپنے درمیان دبوچ کر بٹھائیں گے جبکہ چوتھا شخص اسلحہ چلانے کا کام کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'اغوا کاروں نے مجھ پر بدترین تشدد کیا'

اغوا کی مختصر واردات جس میں عام طور پر مغوی کو اس کی اپنی گاڑی میں ہی تاوان ملنے تک شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ممکن ہے کہ اغواء کر مغوی کو ہی ڈرائیونگ سیٹ پر رہنے دیں۔

یوسف کا کہنا ہے کہ اس طرح کی وارداتیں اکثر خواتین کے ساتھ کی جاتی ہیں، اغواء کار عام طور پر دروازہ کھول کے پیچھے بیٹھ جاتے ہیں اور بندوق تان دیتے ہیں، ایسی صورتحال میں آپ خود کو بچانے کیلئے کچھ کرسکتے ہیں۔

یوسف نے بتایا کہ ایسے موقع پر خوفزدہ نہ ہوں اور اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھیں، گاڑی چلائیں اور جو پہلے گاڑی آپ کے سامنے آئے اسے ٹکر ماردیں، اغواء کار سمجھے گا کہ گھبراہٹ کی وجہ سے آپ سے گاڑی ٹکرائی سڑک پر موجود دوسری گاڑیاں بھی رک جائیں گی اور ایسا ماحول بن جائے گا کہ اغواء کر بھاگنے میں ہی عافیت جانے گا۔


کوئی عزیز اغواء ہوگیا، اب کیا کریں؟

1۔ پولیس اور دیگر حکام کو اطلاع کریں

کسی بھی جرم کی اطلاع پولیس کو دی جانی چاہیے تاکہ ایف آئی آر درج ہوسکے، یوسف کہتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ سوچتے ہیں کہ وہ صرف پولیس پر بھروسہ نہیں کرسکتے لیکن پولیس اور سی پی ایل سی کو اطلاع ضرور کریں کیوں کہ آپ کسی مجرم پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو اپنی قانون نافذ کرنے والی ایجنیسیوں پر بھروسہ کرنا چاہیے اور مقدمہ درج کرانا چاہیے نہ کہ ایک مجرم پراعتماد کرنا چاہیے۔

2۔ رپورٹ درج نہ کرائی تو کیا ہوگا؟

یوسف کہتے ہیں کہ اگر آپ نے اغواء کی رپورٹ درج نہیں کرائی اور خدانخواستہ مغوی کو کچھ ہوگیا یا اسے قتل کردیا گیا تو پولیس کا سب سے زیادہ شک آپ پر ہی جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اب جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوچکی ہے اور تاوان کی ادائیگی کے بغیر مغوی کی بازیابی کی اہلیت رکھتی ہے لہٰذا رپورٹ درج نہ کرواکر آپ اپنی ہی مشکل میں اضافہ کرتے ہیں۔

3۔ کیا اغواء کار مغوی کو نقصان پہنچائیں گے؟

یوسف کا تجربہ کہتا ہے کہ وہ مغوی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، اغواء کاروں کی جانب سے تاوان کیلئے اغواء کیے جانے والوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ مغوی شخص ہی اغواء کاروں کی واحد 'بارگیننگ چپ' ہوتی ہے لہٰذا وہ اسے نقصان پہچانے سے گریز کرتے ہیں۔

4۔ اغواء کاروں سے مذاکرات کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے؟

یوسف کا کہنا ہے کہ ماضی میں اغواء کاروں سے مذاکرات کا دورانیہ کافی طویل ہوتا تھا اور عام طور پر تین سے چار ماہ لگ جاتے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اغواء کار بہت زیادہ عام ہوگئے ہیں اور پہلے سے زیادہ بے پروا بھی ہوگئے ہیں، اب انہیں پکڑنا زیادہ آسان ہوگیا ہے کیوں کہ وہ زیادہ غلطیاں کرنے لگے ہیں۔

اغواء کے بعد ملزمان جلد از جلد رقم کی وصولی چاہتے ہیں، اغواء کاروں کیلئے بڑی رقم کیلئے طویل مدت تک مذاکرات کرنے کے بجائے دو ماہ کے اندر کم رقم لے کر مغوی کو چھوڑنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

5۔ اگر پولیس چھاپہ ماردے تو مغوی کو کیا کرنا چاہیے؟

یوسف کا کہنا ہے کہ اس دوران مغوی کو زمین پر سیدھا لیٹ جانا چاہیے، انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مغوی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا کیوں کہ وہ بہت جلد کھڑا ہوگیا تھا۔

یوسف نے مشورہ دیا کہ نہ کھڑے ہوں نہ ہی باہر نکلنے کی کوشش کریں، کیوں کہ پولیس نہیں جانتی کہ آپ مغوی ہو یا اغوا کار۔

6۔ مغوی شخص کی بحالی کیلئے کیا کرنا چاہیے؟

یوسف کا کہنا ہے کہ بازیاب ہونے والے شخص کو الگ تھلگ کردینا یا حد سے زیادہ توجہ دینا دونوں ہی غلط ہے، بازیاب ہونے والوں کی اعتماد سازی کرنی چاہیے۔

یوسف نے کہا کہ میں عام طور پر انہیں ایک رول نمبر دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ آپ مغویوں کے کلب کے وی آئی پی رکن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مغوی انتہائی خطرناک حالات اور جسمانی اذٰیت سے گزرا ہو تو ان کے ساتھ معمول کا برتائو کریں اور اس کے ساتھ شائستگی سے پیش آئیں۔


السٹریشن: مریم علی/ ہیرالڈ

وڈیو پروڈکشن: کامران نفیس، عامر بیگ

ترجمہ: محمد خالد حسین

فہد نوید چائے کے شوقین کراچی والے ہیں، وہ اس وقت ڈان میڈیا گروپ میں بطور ملٹی میڈیا صحافی کام کر رہے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں : fahadnaveed@