پاکستان

پاک-انڈیا رکنیت کی درخواستوں کیلئے این ایس جی اجلاس

نیوکلیئر سپلائرزگروپ کے 48 ممالک اجلاس میں پاکستان اور ہندوستان کی جوہری کلب میں شمولیت کی درخواستوں پر غور کریں گے۔

واشنگٹن: نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کے 2016 کے سالانہ اجلاس کا آغاز آج سے سیئول میں ہورہا ہے، جس کے دوران جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک پاکستان اور ہندوستان کو جوہری کلب کی رکنیت دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے 48 رکن ممالک اجلاس میں پاکستان اور ہندوستان کی جوہری کلب میں شمولیت کی درخواستوں پر غور کریں گے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 12 مئی کو ہندوستان کی درخواست کے بعد پاکستان نے 19 مئی کو نیوکلیئرسپلائرز گروپ ( این ایس جی) کی رکنیت کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست جمع کرائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی درخواست

خیال رہے کہ ہندوستان کے پہلے نیوکلیئر ٹیسٹ کے بعد ایٹمی ہھتیاروں کی تیاریوں کو روکنے کے لیے 1974 میں این ایس جی تشکیل دی گئی تھی، تاہم امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور دیگر بڑے ممالک کی حمایت کے بعد ہندوستان کی این ایس جی میں شمولیت کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے۔

البتہ چین، ہندوستان کا سب سے بڑا مخالف ہے، جس نے ہندوستان کی شمولیت کو خطے کے امن و استحکام کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، چین کا موقف ہندوستان کی رکنیت سے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا مقابلہ شروع ہوجائے گا۔

چین اپنے قریبی دوست پاکستان کو 48 رکنی گروپ میں شامل کرنے کا حامی ہے، چین چاہتا ہے کہ اگر ہندوستان کو این پی ٹی (نان پرولفریشن ٹریٹی) سے استثنیٰ دے کر جوہری کلب میں شامل کیا جاسکتا ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں، اس کا موقف ہے کہ دونوں ممالک کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہوئے این ایس جی کی رکنیت دی جانی چاہیئے۔

مزید پڑھیں: این ایس جی میں شمولیت: ہندوستان کا سب سے بڑا مخالف چین

واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان نے اب تک این پی ٹی (نان پرولفریشن ٹریٹی) پر دستخط نہیں کیے اور این ایس جی میں شمولیت کے لیے این پی ٹی معاہدے پر دستخط کرنا لازمی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ چین، پاکستان کو جوہری کلب میں شامل کرنے کے حوالے سے این ایس جی پر زور نہ ڈالے تاکہ ہندوستان کا این ایس جی گروپ میں شمولیت کا خواب چکنا چور ہوجائے۔

نیوکلیئر سپلائرز گروپ ( این ایس جی ) 48 ممالک کا ایک گروپ ہے جو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے کام کرتا ہے اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹنگ کی بھی کڑی نگرانی کرتا ہے۔

پاکستان کو خدشہ ہے کہ اگر ہندوستان کسی طرح گروپ کا رکن بن جاتا ہے تو وہ پاکستان کو اس کا رکن بننے سے روک سکتا ہے کیوں کہ گروپ کے تمام فیصلے متفقہ رائے سے ہوتے ہیں۔

پاکستان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ہندوستان کی شمولیت سے اس کی رسائی نیوکلیئر ٹیکنالوجی تک ہوجائے گی اور وہ اپنے جوہری مواد میں مزید اضافہ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ہندوستانی شمولیت کا حامی

یاد رہے کہ رواں ماہ 7 جون کو امریکی صدربراک اومابا نے ہندوستانی وزیراعظم نریند مودی کی این ایس جی درخواست کا خیر مقدم کیا تھا اور این ایس جی کے سالانہ اجلاس میں بھرپور حمایت کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔

تاہم امریکی سینیٹرز نے اومابا کو ہندوستان کی حمایت کرنے سے خبردار کیا تھا، اس حوالے سے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے ایک اداریے میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں رکنیت اس وقت تک میرٹ پر نہیں اترتی جب تک ہندوستان گروپ کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔

مزید پڑھیں: 'ہندوستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے معیار پر پورا نہیں اترتا

تاہم اوباما انتطامیہ نے سینیٹرز کی تنبیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوستان کی حمایت کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا این ایس جی اجلاس میں ہندوستان کی حمایت ضرور کرے گا۔

اس سے قبل امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اس حوالے سے این ایس جی اراکین کو آمادہ کرنے کے لیے خط لکھا تھا۔

واضح رہے کہ ہندوستان 2008 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ( آئی اے ای اے) کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرچکا ہے۔

واشنٹگن میں کارنیگی انڈومنٹ برائے انٹرنیشنل پیس نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے سینئر آفیسر مارک ہبز نے این ایس جی پر زور دیا یے کہ وہ ہندوستان کو قطعی طورپر جوہری کلب میں شامل نہ کرے۔

انہوں نے ڈپلومیٹ نیوز میگزین میں لکھا کہ نیو کلیئر سپلائرز گروپ ہندوستان کی درخواست کو رواں ہفتے منظور نہ کرے۔

مارک ہبز نے لکھا کہ ہندوستان کو گروپ میں شامل کرنے سے پہلے اس کے خلاف تحقیقات مکمل کی جائے اور تمام اراکین کے متفقہ فیصلے کے بعد ہندوستان کو جوہری کلب میں شامل کیا جائے۔

یہ خبر 20 جون 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔