فوٹو : اے ایف پی افغان وزرات داخلہ کے ترجمان صدیق صادق نے بتایا کہ حملے کے بعد مسلح افراد سے سیکیورٹی اداروں کی جھڑپ بھی ہوئی۔
ترجمان کے مطابق 2 سے 3 مسلح افراد خفیہ ایجنسی کی عمارت میں داخل ہوئے۔
البتہ ان افراد کی ہلاکت کے حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔
صدیق صادق کا کہنا تھا کہ حملے کے فوری بعد سیکیورٹی اداروں نے اس علاقے کو گھیرے میں لیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق دھماکے کے مقام کے قریب افغان وزارت دفاع، فوجی کمپاونڈز اور امریکی سفارتخانہ واقع ہیں۔
امریکی سفارتخانے کے حکام کے مطابق سفارتی عملے کو دھماکے میں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
افغان صدر اشرف غنی نے حملے کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
حملے کی ذمہ داری
افغان طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق حملے میں خفیہ ادارے کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کی مذمت
پاکستان نے کابل میں ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دہشت گردی پر مذمتی بیان جاری کیا گیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق دہشت گردی کے واقعے کا نشانہ بننے ہونے والوں کے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں پاکستان افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے،غم کی اس گھڑی میں پاکستان افغانستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے افغان طالبان نے موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کیا تھا، اس آپریشن کو طالبان کی جانب سے 'عمری آپریشن' کا نام دیا گیا۔
خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق افغان آرمی چیف جنرل قدم شاہ شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کی جانب سے موسم بہار کی آمد پر نئے آپریشن کا اعلان صرف پروپیگنڈا ہے، ان کو ملک کے کسی بھی حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
طالبان کی جانب سے نئے آپریشن کے اعلان کے بعد گزشتہ ہفتے صوبے تخار میں سڑک کنارے نصب بم حملے میں اعلیٰ سیکیورٹی افسر سمیت 8 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس دھماکے سے دو روز پہلے جلال آباد کے قریب افغان فوج میں بھرتی ہونے والے افراد کی بس پر خود کش حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
دو ہفتے قبل امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان آئے تھے، ان کے دارالحکومت کابل کے دورے کے فوری بعد شہر کے وسطی علاقے میں متعدد دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
راوں ماہ کے شروع میں مشرقی صوبے پروان میں ایک موٹر سائیکل سوار خودکش بمبار نے خود کو ایک اسکول اور کلینک کے قریب دھماکے سے اڑالیا تھا، جس کے نتیجے میں کم ازکم 6 شہری ہلاک اور 22 زخمی ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے افغان مشن (اونامہ) کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغان حکومت کے خلاف طالبان سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں کی جاری جنگ شدید ہونے کے باعث رواں سال افغان بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال جنوری سے مارچ کے دوران 161 بچے ہلاک جبکہ 449 بچے زخمی ہوئے، مذکورہ تین ماہ کے عرصے میں مجموعی متاثرہ شہریوں کی تعداد 1943 ہے، جس میں 600 افراد ہلاک جبکہ 1343 زخمی ہوئے ہیں، گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں 13 فیصد کمی آئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد میں 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال افغانستان میں شدت پسندی کے واقعات میں 11 ہزار سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے افغان طالبان کی قیادت ملا عمر کے نائب ملا اختر منصور کر رہے ہیں۔
ملا اختر منصور کے امیر بننے کے بعد طالبان میں اختلافات پھوٹ پڑے اور وہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے، تاہم گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ یہ اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور مخالف دھڑے کے رہنماؤں کو بھی طالبان کی شوریٰ شامل کر لیا گیا ہے۔
طالبان کے کئی چھوٹے گروہ شام اور عراق کے بعد افغانستان میں قدم جمانے والی دہشت گرد تنظیم داعش میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ گروپ 2001 میں امریکا کی مداخلت کے باعث افغان حکومت چھن جانے کے بعد افغان حکومت کے خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے۔
یاد رہے کہ طالبان نے دسمبر 2014 میں افغانستان سے امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد اپنی کارروائیوں کو تیز کردیا، جس میں اب تک ہزاروں افغان فوجی اور پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔
دوسرے جانب طالبان نے اپنی شرائط کی منظوری تک افغان امن مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے، جس میں ملک میں موجود 13000 غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
گذشتہ سال جون میں افغان طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کی موت کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہوگیا تھا جبکہ طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا امیر مقرر کردیا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ حالیہ چند ماہ میں داعش نے صوبہ ننگرہار میں اپنے قدم مضبوط کیے ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔