پاکستان

خفیہ رائےشماری کاتصوراسلام میں نہیں،چیف جسٹس

جسٹس انور ظہیر جمالی کے مطابق قانون عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے جسے ملک کی فلاح و بہبود میں استعمال کیا جائے.

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے خفیہ رائے شماری کے تصور کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ کار مغرب سے لیا گیا ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا، 'خفیہ رائے شماری مغرب کا تصور ہے اور یہ اسلام میں موجود نہیں'، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عام رائے شماری منافقت کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے یہ ریمارکس سندھ حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے 10 فروری کو دیئے گئے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران دیئے.

یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے 10 فروری کے فیصلے میں متحدہ قومی مومنٹ اور مسلم لیگ فنکشنل کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے حالیہ مقامی حکومتوں کے قانون (لوکل گورنمنٹ آرڈیننس) میں ہونے والی ترمیم کو بے اثر قرار دیا تھا، جس کے تحت میئر، ڈپٹی میئر اور مقامی حکومت کے دوسرے صوبوں میں نمائندوں کے انتخاب کے طریقے کار کو خفیہ رائے شماری سے بدل کر 'شو آف ہینڈ' (ہاتھ کھڑا کرنا) سے تبدیل کر دیا گیا.

جس کے بعد 17 فروری کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سندھ میں ہونے والے میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین، وائس چیئرمین اور مخصوص نشستوں کے انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

واضح رہے کہ گزشہ 3 سال کے دوران مقامی حکومت کے انتخابات خفیہ رائے شماری یا عام طریقے سے کروانے کے معاملے پر بہت گرما گرم بحث ہو چکی ہے.

مذکورہ درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے اور ملک کی فلاح و بہبود میں استعمال ہونا چاہیے، لیکن حکومت نے اس قانون سازی کے کاروبار کو مذاق بنا دیا اور ایسے قانون متعارف کراوئے جن سے ان ہی کو فائدہ ہوتا ہے اور بعد میں اُٹھنے والے تنازع کا سارا بوجھ عدلیہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں : کراچی کا میئر : ایم کیو ایم کا راستہ ہموار

انہوں نے مزید کہا کہ قانون میں ترمیم کا اصل مقصد تباہی کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ لوگوں کو فلاح اور مدد فراہم کرنا ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک پارٹی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ قانون میں کچھ مخصوص قوانین بدنیتی کے ارادے سے متعارف کروائے گئے ہیں، جبکہ اس کو بچانے کے لیے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ قانون اچھے ارادوں سے متعارف کروایا گیا ہے، اس سے لوگوں کے درمیان بد اعتمادی جنم لیتی ہے۔

دوسری جانب سندھ حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی جمہوری نظام میں صاف اور شفاف الیکشن اس کی بنیاد ہوا کرتے ہیں ۔

فاروق نائیک نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ درخواست گزاروں نے صرف اس بات کو چیلنج کیا جو ہائیکورٹ نے 17 جون 2016 کو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) کے زمرے میں مہیا کی تھی، جس کے تحت بلا واسطہ میئر اور ڈپٹی میئر کے چناؤ کو خفیہ رائے شماری سے بدل کر شو آف ہینڈ کر دیا گیا تھا، لیکن ہائی کورٹ نے تیسری ترمیم ہی ختم کردی.

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ

انھوں نے کہا کہ، 'قلم کی ایک جنبش سے سے ٹریبونلز کی تقرری کا پورا طریقے کار ایک لمحے میں ختم کردیا گیاہے'.

انہوں نے مزید کہا کہ اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے کوئی وجہ بیان نہیں کی کہ مخصوص سیٹوں پر خواتین اور نوجوانوں کی نمائندگی کو (جو سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی تیسری ترمیم میں موجود تھی) کو بغیر کسی وجہ کے کیوں خارج کر دیا گیا.

فاروق ایچ نائیک نے اس بات کی وضاحت کی کہ بلدیاتی اتخابات بلواسطہ الیکشن تھے جس میں ووٹرز آکر آزاد امیدوار کو ووٹ ڈالتے جبکہ چیئر مین، وائس چیئر مین کے انتخابات بلا واسطہ ہوتے ہیں، جس میں عام آدمی کا کوئی کام نہیں ہوتا، جبکہ ایک پارٹی ہوتی ہے جو کسی نمائندے کو آگے لاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے قانون بنانے کا اختیار، جو انتظامی اور مالیاتی منتقلی کی طاقت رکھتے ہوں، صرف صوبے کے پاس ہے، اس بات پر سوال کرنا کہ ہاتھ اُٹھانا ہے یا نہیں، یہاں آئین کی نفی کرے گا اور کرپشن کو بڑھاوا دے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کام نہیں کہ وہ قانون بنائے کیونکہ یہ طاقت صوبائی حکومتوں کے پاس ہے'.

بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل محمد وقار رانا نے عدالت کے روبرو کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی اور آئین کا آرٹیکل 226 جس سے خفیہ رائے شماری کے ذریعے وزیراعظم کا چناؤ کیا جاتا ہے، وہ لوکل گورنمنٹ الیکشن پر لاگو نہیں ہوتا ۔اسی طرح آرٹیکل 140A جو بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس میں خفیہ رائے شماری کا تصور موجود نہیں۔

اس موقع پر خیبر پختونخواہ کے وکیل جنرل عبد الطیف یوسفزئی نے دلائل دیئے کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ پہلے سے قائم کی گئی مقامی حکومت پر اثر انداز نہیں ہوگا جہاں ناظم اور نائب ناظم کے انتخابات ہوچکے ہیں.

یہ خبر 6 اپریل، 2016 کے ڈان اخبار سے لی گئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔