کالاش ثقافت کیوں دم توڑ رہی ہے؟
جب سے سپریم کورٹ نے اردو زبان کو بطور پاکستان کی دفتری زبان لاگو کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں، مختلف سمت سے زبان و ثقافتوں کو محفوظ کرنے، فروغ دینے اور سرکاری اقدامات کے ذریعے ان کی ترقی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ ایک حوصلہ افزا بحث ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی زبانوں کو تحفظ دینے کی کوششیں ہر لحاظ سے قابل قدر ہیں۔ پاکستان میں اردو زبان کو رابطے کی زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن پاکستان میں یونسکو کے مطابق 72 دیگر چھوٹی اور علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ ماہرین لسانیات اس موقع کو زبانوں کی خدمت کا بہترین موقع سمجھتے ہیں اسی سلسلے میں گزشتہ روز کھوار ثقافت کو لاحق خطرات پر چند ایک خوبصورت مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا، جن میں فاضل مضمون نگاروں نے کھوار موسیقی سمیت کھوار ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر ذکر کرتے ہوئے کسی حد تک ممکنہ خطرات کی پش بندی کی اور اچھی تجاویز پیش کیں۔
کھوار خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چترال کی غالب زبان ہے۔ کسی زبان و ثقافت کو تکنیکی طور پر اس وقت خطرہ پیش آتا ہے جب اس کے بولنے والے اپنی بولی بولنے میں شرماتے ہوں، اپنے بچوں تک اپنی مادری زبان منتقل کرنے میں کتراتے ہوں یا بہت بڑی تعداد میں دائمی ہجرت کا مسئلہ درپیش ہو، تو کسی زبان و ثقافت کے معدوم ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہوا جاسکتا ہے۔
کھوار زبان کے حوالے سے تاحال ایسی صورتحال یا تو بالکل نہیں یا بہت چھوٹے پیمانے پر وقوع پذیر ہو رہی ہیں، مثلاً ایسی کوئی صورتحال ابھی پیدا نہیں ہوئی کہ چترالی اپنے بچوں کو کھوار بولنے نہیں دیتے۔ یاد رہے کہ چترال سے باہر مقیم چترالیوں کو تکنیکی طور پر اس طرح کے سروے یا سٹڈی میں زیر بحث لانا درست نہیں ہے۔ بیرونی دنیا میں رہائش پذیر لوگوں کی ترجیحات اور مسائل مخلتف ہوتے ہیں اور وہ اگر کھوار زبان کو اپنے بچوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو اس سے کھوار کی صحت پر زیادہ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ہم کھوار سے کراچی میں اردو کا مقابلہ کرکے پھلنے پھولنے کی توقع نہیں کرسکتے۔ جس طرح ہم پاکستانیوں کو امریکی گرین کارڈ لینے کے بعد اردو سے چمٹے رہنے کی تلقین نہیں کرسکتے، اس لیے چترال سے باہر مقیم چترالیوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑنا ہوگا۔
سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا کھوار چترال میں مضبوط ہے یا نہیں۔ چترال میں کھوار زبان کو چیلنجز تو بہت ہیں، مثلاً اسکولوں میں اردو یا انگریزی پڑھائی جاتی ہے، زیریں چترال میں تجارت کی زبان تقریباً پشتو بن گئی ہے۔ یہ چیلنجز مستقبل بعید میں ضرور خطرناک ہوسکتے ہیں اگر چترالیوں نے اپنی زبان کو اسکولوں میں بطور مضمون پڑھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تو نئی نسل اسے ایک بے فائدہ زبان تصور کرے گی اور یوں یہ زبان ختم ہوجائے گی۔
ہم دنیا کے اُس حصے کے باسی ہیں جہاں زبان دوسری اپنائی جاسکتی ہے لیکن پہچان نہیں چھوڑی جاتی۔ چترالی بہت بڑی تعداد میں کراچی میں آباد ہیں، ان میں بہت سوں کی اولاد بہت اچھی اردو بولتی ہے اور اگلی نسل شاید اپنے بچوں کو کھوار نہ سکھائے، لیکن وہ کھوار ثقافت پھر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ مہمان داری چترالی انداز میں کرتے ہیں، چترالی ٹوپی پہننے کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہیں، شادی بیاہ میں چترالی روایت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ دوسرے لسانی گروپ میں شادیوں کے بعد ہوئے بچوں کے لیے کھوار ثقافت کے ساتھ تعلق جوڑے رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
مختصراً یہ کہ چترال کے اندر کھوار زبان اور کھوار ثقافت کو مستقبل قریب میں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ البتہ چترال میں ایک خوبصورت ثقافت کالاش قبیلہ کی ہے جسے واقعی معدومیت کا چیلنج درپیش ہے۔ گزشتہ سال چترال میں مختلف قدرتی آفات میں وادی کالاش بھی شدید متاثر ہوئی، لیکن ہمارے معاشرے کے ایک عنصر نے پورے چترال کی تباہی کی وجہ کالاش آبادی کی رسوم کو قرار دیا۔ اس مبینہ شرانگیزی کی زبردست مذمت ہوئی، سوشل میڈیا پر تو آگ لگ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بیان کس کی جانب سے دیا گیا تھا اس کا تاحال علم کسی کو بھی نہیں۔
یہ بیان واقعی کسی نے دیا تھا یا یہ صرف مضمون نگار کی ذہنی اختراع تھا، اس بات سے قطع نظر یہ کالاش آبادی پر مختلف زاویوں سے دباؤ کو ضرور نمایاں کرتا ہے۔ ہم بزور طاقت کالاش قبیلے کو اپنے آپ سے نفرت کرنے پر مجبور کرتے ہیں، شراب کی حوصلہ شکنی کے نام پر ان کے گھروں پر پولیس ریڈ ہوتی ہے، ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھی جاتی ہے، ان کے مہمانوں پر نظر رکھی جاتی ہے، ہر کوئی اس قبیلے کے افراد کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ عوامل انہیں شدید دباؤ میں لاتے ہیں اور وہ اپنی ثقافت چھوڑتے ہوئے آسانی محسوس کرتے ہیں۔
کالاش قبیلے کے تیزی سے سکڑنے کی بڑی وجہ ان کا مذہب تبدیل کرنا ہے۔ جب ہم کالاش قبیلے کو تحفظ دینا چاہتے ہیں تو ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان کیے جانے سے روکا جائے۔ تب یہاں مذہبی عوامل اور عناصر کو مداخلت کرنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے اور پھر ہر مہم کا حشر نشر ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ہم کالاش لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ مذہب تبدیل کرنا ان کا ذاتی فعل اور ترجیح ہے لیکن انہیں اپنی ثقافت تبدیل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اسلام نے کسی خاص پوشاک پر زور نہیں دیا۔ طلوع اسلام سے پہلے عربی غیر مسلموں کی زبان تھی، لوگ مسلمان ہوئے تب بھی عربی زبان ہی چلی، انہیں کوئی نئی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
ایک مسلمان چترالی، پٹھان، پنجابی، سندھی یا سرائیکی شناخت رکھ سکتا ہے تو آپ کالاش شناخت کے ساتھ مسلمان کیوں نہیں بن سکتے؟ لہٰذا کالاش لوگوں کا مسلمان بنتے ہی کالاش زبان سے بھی ناطہ توڑنا لازمی نہیں۔ وہ چاہیں تو اپنے بچوں کو اپنی ہی زبان میں مسلمان بنا سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کو روایتی ملبوسات پہنا سکتے ہیں، اپنے تہوار منا سکتے ہیں، گوجری قبیلے میں خواتین کے روایتی ملبوسات کالاش سے ملتے جلتے ہیں، وہ مسلمان ہیں۔ بلوچ خواتین بلکہ مرد حضرات کے لیے بھی روایتی ملبوسات معروف ہیں ان میں سے کسی قبیلے کو محض مسلمان بننے کے لیے اپنی ثقافت تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کالاش قبیلے کا فرد مسلمان بننے کے بعد کھوار زبان بولنا شروع کر دیتا ہے اور یوں اس کی نسل اپنی زبان و ثقافت سے دور ہوجاتی ہے۔ کھوار ظاہر ہے کوئی اسلامی یا مذہبی زبان کا درجہ نہیں رکھتی۔ چترالی مسلمان نماز کی نیت اپنی زبان میں باندھتے ہیں، یہی عمل مسلمان ہونے کے بعد کالاش قبیلے کے وہ افراد بھی کرسکتے ہیں جو مذہب تبدیل کردیتے ہیں، تاکہ ان کی زبان اور پہچان بحیثیت کالاش آگے چلے۔
کالاش ثقافت چترال اور پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ہمیں ان کی پہچان کو احترام دینا ہوگا۔ معاشرے میں ان کے لیے اتنی گنجائش ضرور پیدا کرنی چاہیے کہ وہ اپنی شناخت بتاتے ہوئے گھبراہٹ یا شرم محسوس نہ کریں۔
اعجاز احمد غیر سرکاری تنظیم فورم فار لینگوئیج انیشی ایٹوز (FLI) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: EjazAhmed36@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔