ٹریفک چالان میں چار گنا اضافہ کیوں ضروری؟
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے ہونے والے حادثات ترقی پذیر ممالک کے بڑے مسائل میں سے ایک ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں ٹریفک حادثات میں سب سے زیادہ اموات کے حوالے پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق سالانہ 20 ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ شرح اموات کی اس فہرست میں سر فہرست طویل عرصے سے جنگ زدہ افغانستان اور دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والے ملک ہندوستان کا ہے جبکہ بنگلہ دیش میں صورتحال پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے۔
سگنل کی خلاف ورزی اور مقررہ رفتار سے زیادہ تیز گاڑی چلانے کے باعث ہونے والے اندوہناک حادثات سے بچنے کے لیے ٹریفک قوانین پر عملدرآمد بہت ضروری ہے اور اسے یقینی بنانے کے لیے متعدد تجاویز اور اصلاحات پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ عوامی حلقوں میں بھی بحث ہوتی رہی ہے۔
اسی سلسلے میں گذشتہ سال سندھ کی صوبائی اسمبلی نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والے جرمانے میں اضافے کی تجویز منظور کی تھی۔ لیکن صورتحال اس کے بعد بھی جوں کی توں ہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
اول یہ کہ 49 سال بعد کیا گیا یہ اضافہ بہت معمولی ہے اور دوئم اس میں پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر لی جانے والی رشوت کے معاملے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔اگر جرمانے کی رقم کم از کم چار گنا بڑھائی جاتی تو اس سے بہت سارے فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے۔ وہ کیسے؟ آئیےدیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: 90 فیصد ٹریفک حادثات ترقی پذیر ممالک میں...
اس وقت گاڑی کے سیاہ شیشوں، سگنل کی خلاف ورزی کرنے اور غلط سمت میں گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کا جرمانہ محض 500 روپے، بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر 300 روپے اور تیز رفتاری پر 400 روپے ہے۔ اس کے علاوہ غیر رجسٹرڈ گاڑی چلانے پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ ہے لیکن یہ اس وقت کی بات جب آپ پکڑے جائیں۔
انتہائی سنگین نوعیت کے جرائم جن میں شہریوں کو شدید جانی اور مالی خطرات لاحق ہیں پر محض چند سو روپے کا جرمانہ سمجھ سے باہر ہے۔ اور اگر خلاف ورزی کا معاملہ کسی بے ایمان پولیس اہلکار کے ہاتھ لگ جائے تو اور بھی سستے میں جان چھوٹ سکتی ہے چاہے جرم کی نوعیت کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو۔ ان دونوں مسائل کا حل یہ ہے کہ جرمانے کی رقم کو کم از کم ایک ہزار روپے کردیا جائے اور دوبارہ وہی غلطی دہرانے پر جرمانے کی رقم دوگنا بڑھا دی جائے۔ اس سے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی کرنے والے پر زیادہ بوجھ پڑے گا بلکہ اس کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔ اب چاہے وہ اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے قانونی طریقہ اپنائے یا غیر قانونی راستہ منتخب کرے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈرائیونگ لائسنس یا 'قتل کا لائسنس'؟
گذشتہ سال ہونے والے اضافے سے قبل 1965ء کے قوانین لاگو تھے جس میں جرمانے کی رقم کم از کم 50 روپے اور زیادہ سے زیادہ 300 روپے تھی۔ یہ پچاس سال پرانے زمانے کے اعتبار سے بہت زیادہ اور حق بجانب تھا۔ وقت کے ساتھ لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوا، مہنگی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں سڑکوں پر نظر آنے لگیں لیکن قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے کی رقم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب عام شہری جرمانہ بھرنے کے چکروں سے بچنے کے لیے اجلی وردی والوں کو معمولی رشوت دے کر جان چھڑا لیتا ہے۔ یوں قانون کی خلاف ورزی محض چند ہرے اور لال نوٹوں کے عوض جائز قرار پاتی ہے اور تقریباً ہر شخص بلا خوف و خطر اور کچھ لوگ فخریہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اگر جرمانے کی رقم بڑھا دی جائے اور اس میں سے کچھ مقرر حصہ چالان کرنے والے اہلکار کو دیا جائے تو اس سے رشوت کا نظام ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔