ادلا بدلی کی پالیسی
مئی 2013 کے عام انتخابات کے لیے نگران سیٹ اَپ کے قیام سے قبل جنوری میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں لانگ مارچ کیا لیکن ڈاکٹر صاحب خالی ہاتھ ہی ”مبارک ہو، مبارک ہو“ کے نعرے کے ساتھ رفوچکر ہو گئے۔ اگلے سال اگست کے مہینے میں ایک بار پھر پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر ریڈ زون میں طویل دھرنا دیا لیکن وہ دوبارہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
مذکورہ دونوں مواقع پر مرکز میں الگ الگ حکومتیں تھیں اور دونوں حکومتوں کو نظام لپیٹے جانے کے خدشات اور خطرات کا سامنا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید اسکرپٹ لکھنے والے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران میدان میں موجود مداریوں کے گرد لوگ جمع تو ہوئے پر وہ سب کچھ نہ ہوا جس کا سیاسی حکومتوں کو خدشہ تھا۔ ان خطروں اور خدشات کا سامنا آصف زرداری کی حکومت نے بھی کیا اور اب نواز حکومت کو بھی ان خدشات کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف یہ تو کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو لپیٹنے کی سازش کی جا رہی ہے لیکن کھل کر بیان نہیں کر رہے کہ خطرہ ہے تو آخر کس سمت سے؟
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم کس قدر بے بس ہیں کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ خطرات اور خدشات ہیں لیکن کہاں سے اور کون کر رہا ہے سازش یہ نامعلوم ہے؟ پہلے پی ٹی آئی پر الزامات لگتے رہے کہ وہ جمہوریت لپیٹنے کی سازش کر رہی ہے لیکن جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد کسی حد تک پی ٹی آئی کی جانب سے تو یہ معاملہ تقریباً ختم ہو گیا۔ آصف زرداری کی حکومت میں میمو گیٹ اسکینڈل کے سامنے آنے کی وجہ بھی یہی تھی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی یہی خدشہ اور خطرہ تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور اسی لیے انہوں نے امریکی حکام کو آمریت سے بچانے کے لیے مراسلہ ارسال کیا تھا اور اسی مراسلے کے لکھنے والوں کے خلاف میاں نواز شریف سپریم کورٹ گئے تھے اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تاحال میمو گیٹ اسکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی ہو سکی اور نہ ہی امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لایا جا سکا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے دور میں اس سازش کے ذمہ داروں کو سزا ملتی تو آج یہ نوبت دوبارہ ہرگز پیش نہ آتی۔ لیکن چونکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو مفاہمت کی سیاست آگے بڑھانی ہے، تو ایسے میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف کیسے کارروائی کر سکتی ہیں؟ پیپلز پارٹی نے جیسے تیسے اپنے 5 سال پورے کر لیے لیکن کیا ن لیگ بھی پیپلز پارٹی کی طرح پانچ پورے کرے گی؟ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ایسا لگنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اس کی ذمہ داری کسی اور کی ہرگز نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی ہی ہوا کرتی ہے۔
آپ مفاہمت کی سیاست ضرور کریں لیکن اس میں اپنے مفاد پر قومی اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں۔ اگر آپ مخلص ہیں اور آپ میں عوام کے مسائل حل کرنے کا حوصلہ، ہمت اور طاقت ہے تو آپ کو کسی ریاستی ادارے یا بیرونی سازش سے گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ لیکن اگر آپ بھی ماضی کی طرح پانچ سال 'پورے' کر رہے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت نہیں کرنی تو پھر آپ کو سازشوں اور خطرات کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔
ن لیگ نے اپنی انتخابی مہم میں جو جو وعدے کیے تھے، اس میں ایک پر بھی تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم صرف سازشوں کی بات نہیں کر رہے بلکہ ریاستی اداروں کو بھی تنبیہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی حدود میں رہیں اور یہی بات عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی بار بار سامنے آ رہی ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔
اگر ریاستی اداروں کے مابین ٹکراؤ کی صورتحال کا معاملہ ہو تو یہ پہلی بار سامنے نہیں آیا، اس طرح پہلے بھی ہوتا رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بعض ریاستی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو تمام ریاستی اداروں کی حدود کا تعین تو آئین میں موجود ہے پھر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جا رہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جو بھی سیاسی پارٹی برسرِ اقتدار یا حزبِ اختلاف میں ہو وہی سیاسی جماعتیں زیادہ شور مچاتی ہیں۔
اگر وزیراعظم کی بات پر مزید روشنی ڈالی جائے تو ریاست کے تین ہی ادارے ہیں یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ اگر مقننہ کی بات کی جائے تو پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی بھی پارٹی پر موجودہ حالات میں جمہوریت کو لپیٹنے کی سازش کا الزام لگانا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جے یو آئی اور اے این پی کئی بار اس بات کا برملا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ آمریت کو کسی صورت قبول نہیں کریں گی۔
اگر ایم کیو ایم پر نظر ڈالی جائے تو ان کی سیاست کو ابھی مزید پختگی کی ضرورت ہے، اور ویسے بھی الطاف حسین کا بیان رات کچھ اور صبح کچھ ہوتا ہے، اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں۔ رہی بات انتظامیہ کی تو وہ کیونکر اس سازش کا حصہ بنے گی۔ اگر آپ کو پھر بھی انتظامیہ میں کسی طرف سے اس کی بو آ رہی ہے تو آپ براہِ راست ان سے بات کیوں نہیں کرتے، وہ بھی تو براہِ راست وزیراعظم کے ماتحت ہیں۔ انتظامیہ کا آپ کی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے، اس پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔
ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ دنوں پر محیط دھرنوں کے دوران اسی طرح کی سازشوں کے خاتمے کے لیے آپ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا سکتے ہیں تو پھر انتظامیہ سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس دیگر آپشن ہیں جو آپ استعمال کر سکتے ہیں۔ اور جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو اعلیٰ عدالتیں نظریہ ضرورت کو دفن کر چکی ہیں یہ شاید آپ کو معلوم ہی نہیں۔
جہاں تک ریاست کے چوتھے ستون یعنی میڈیا کی بات ہے تو جناب میڈیا نے پرویز مشرف کے دور میں جنم ضرور لیا لیکن سابق صدر کے سامنے کبھی نہیں جھکا اور نہ ہی آئندہ کوئی میڈیا سے اس طرح کی توقع رکھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب کچھ وقت سے میڈیا کی آزادی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، لیکن اس کو کمزور سمجھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
اگر اس کے باوجود وزیرِ اعظم کو لگتا ہے کہ ان کی حکومت کو خطرات لاحق ہیں تو ریاستی اداروں کی ناراضگی کو فوری ختم کرنے کے لیے ادلا بدلی کی پالیسی اپنائی جائے۔ کہیں آپ کو اپنی اکڑ چھوڑنی ہوگی تو کہیں ریاستی اداروں کو بھی یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہم سب نے اس ملک میں ہی رہنا ہے کیوں نا سب ایک ہو کر ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت کریں۔ جب ہم اس طرح کی سوچ اپنا کر خود سے شروعات کریں گے، ہر حالت میں ملک و قوم کی خدمت کو ترجیح دیں گے تو پھر آپ کبھی بھی خطرات اور خدشات کی بات نہیں کریں گے۔
اس وقت ملک کی گھمبیر صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کی کوتاہیاں معاف کر کے ملک و قوم کو سنوارنے میں انفرادی سطح سے شروع کر کے مجموعی کردار ادا کریں۔ پھر کسی کی سازش کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی اس طرح کی سوچ رکھنے کے لیے وقت ہوگا۔
ارشد اقبال پشتو نیوز چینل خیبر نیوز اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔