کیا عمران خان واقعی پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں؟
ڈان میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے چند دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان پاکستان کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ میں ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔
ہاں ان دونوں ہی افراد میں کافی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں سیاست سے پہلے بھی کافی مشہور تھے، اور دونوں کی انا آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
دونوں انتہائی قدامت پرست خیالات رکھتے ہیں، اور دائیں بازو کی عوام کے حکومت مخالف جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دونوں کو ہی ہر وقت کیمروں کے سامنے رہنا پسند ہے۔
لیکن اس کے باوجود یہ مماثلتیں صرف ظاہری ہیں۔
سیاسی سطح پر
سب سے پہلی بات تو یہ کہ عمران خان پاکستان کے سیاسی نظام میں ایک واضح حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کو کم وقت میں زبردست ترقی اور پذیرائی دلوائی ہے، اور ان کے پاس فخر کرنے کے لیے انتخابات میں کامیابی بھی موجود ہے۔
مختصر الفاظ میں کہیں تو عمران خان ایک مستند کامیاب سیاستدان ہیں، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی کامیاب کاروباری شخصیت ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی سیاست نہیں کی۔ اور ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ان کی مشہوری سے دھوکا مت کھائیے گا۔
امریکی صدارتی انتخابات کی مہم میں غیر معروف امیدوار اکثر عوامی غصے کی لہر پر سوار ہو کر ابتدائی مراحل میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر یہ کامیابی زیادہ دیر نہیں چلتی اور بالآخر وہ ہار کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔
بچکانہ مگر نفرت انگیز نہیں
عمران خان کے خیالات پریشان کن اور غلط فہمیوں پر مبنی ہو سکتے ہیں (میں اسی اخبار میں ریاست مخالف دہشتگردی کے بارے میں ان کے خیالات پر لکھ چکا ہوں)۔ اس کے باوجود ٹرمپ کے مقابلے میں ان کی باتیں کچھ بھی نہیں۔ ٹرمپ تو اس قدر بے ہودہ اور اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں عمران خان تو عبدالستار ایدھی معلوم ہوں۔
'نیا پاکستان' ایک بچکانہ نعرہ ضرور ہوسکتا ہے مگر یہ کسی بھی طرح بے ہودہ نہیں ہے۔
کرپشن کو 90 دن میں ختم کردینے کا وعدہ ایک خواب تو ہو سکتا ہے مگر میکسیکن تارکینِ وطن کو امریکا سے باہر رکھنے کے لیے 'دیوارِ ٹرمپ' کی تعمیر کا اعلان ظالمانہ اور نسل پرستی کے قریب تر ہے۔
اس کے علاوہ کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی کینسر ہسپتال، یا کوئی بھی دوسرا فلاحی منصوبہ تعمیر کروایا ہو؟
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ کئی فلاحی تنظیموں کی مدد کرتے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ وہ کرتے ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کوئی سخی دل فلاحی شخصیت نہیں ہیں۔ حقیقت میں The Smoking Gun نامی ویب سائٹ کی تحقیق کے مطابق امریکا کے تمام ارب پتیوں میں ممکنہ طور پر وہ فلاحی سرگرمیوں میں کم ترین حصہ لینے والے ارب پتی ہیں۔
حامیوں کا فرق
تیسری اور آخری بات، آئیں عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا جائزہ لیں۔
جو واضح باتیں ہیں، وہ سب جانتے ہیں، مگر تحریکِ انصاف میں کئی قابلِ تعریف اور معلوماتی کارکن بھی موجود ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر اچھے ارادے رکھتے ہیں پھر بھلے ہی ان کی باتیں اور خیالات کافی معصومانہ ہوں۔
ہاں کچھ حامی آپ کو ٹوئٹر پر آڑے ہاتھوں لیں گے۔ کچھ حقیقی زندگی میں بھی سختی سے پیش آئیں گے، اور خاص طور پر جب بات ڈرون حملوں یا امریکا سے متعلق کسی بھی برائی کی ہو۔
لیکن بدترین انصافی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ٹرمپ کے حامی جو باتیں کہتے ہیں یا کرتے ہیں ان سے زیادہ خطرناک وہ ہیں جو وہ نہیں کہتے یا نہیں کرتے۔
نیو ہیمپشائر کے ٹاؤن ہال میں چند دن قبل ہونے والی ٹرمپ کی میٹنگ کی ویڈیو دیکھنے لائق ہے۔ ایک موقع پر ایک حامی نے ان سے سوال کیا کہ "ہم مسلمانوں سے کب چھٹکارہ حاصل کریں گے؟"۔ ٹرمپ نے جواب دیا کہ: "ہم اس بارے میں بھی دیکھیں گے۔"
یہ مختصر بات چیت ناگوار تھی۔ مگر اس سے بھی زیادہ ناگوار وہاں موجود لوگوں کا ردِ عمل تھا، جنہوں نے اس پر کوئی بھی ردِ عمل نہیں دیا۔
سوال پوچھے جانے سے جواب دیے جانے کے وقفے کے دوران ٹرمپ کے پیچھے موجود لوگوں نے ذرا بھی حیرانگی کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ وہ خاموشی سے سنتے رہے، بلکہ کئی ایک تو مسکرا بھی رہے تھے۔
ایسا محسوس ہوا جیسے کہ یہ باتیں وہاں بیٹھے لوگوں کے لیے عام تھیں۔
اسا کا موازنہ عمران خان کے جلسوں سے کریں جب ان کے حامی ڈرون حملوں یا الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ان کا پرجوش نعروں سے جواب دیتے ہیں، یا تب بھی جب وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر نواز شریف کے بارے میں ناگوار باتیں کہتے ہیں۔
یہ حامی بھلے ہی کئی سوالیہ نقطہ ہائے نظر اور بدذائقہ باتوں کی حمایت کر رہے ہوں لیکن پھر بھی یہ لوگ نفرتیں اور تعصب نہیں پالتے۔ ہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان کے تمام حامی پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے چیمپیئن ہیں۔
کیا عمران خان کی سیاست کی کچھ جہتیں پریشان کن ہیں؟ بالکل۔
لیکن کیا یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست جتنی پریشان کن اور خطرناک ہیں؟ بالکل نہیں۔
تو پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ کسے کہا جانا چاہیے؟ میں اس کا جواب پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔ لیکن وہ شخص عمران خان کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔
مائیکل کوگلمین وڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز، واشنگٹن میں جنوبی ایشیا کے لیے سینیئر پروگرام ایسوسی ایٹ ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس michael.kugelman@wilsoncenter.org ہے جبکہ وہ ٹوئٹر پر MichaelKugelman@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔