قیامِ پاکستان کے بعد 7 برس تک پاکستان کا کوئی قومی ترانہ نہ تھا۔ بس ترانے تھے جو مختلف سرکاری تقریبات پر گائے جاتے تھے۔ پاکستانی قیادت کو آئین بنانے میں جتنی دشواریوں کا سامنا تھا، اتنا ہی قومی ترانہ بنانے میں۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ ترانہ کس زبان میں لکھا جائے، کیونکہ پاکستان کے اکثریتی علاقے مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان بولی جاتی تھی، جبکہ مغربی پاکستان میں 4 زبانیں یعنی سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو بولی جاتی تھیں، جبکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی زبانوں سے ہٹ کر اردو کو قائدِ اعظم محمد علی جناح صاحب کی جانب سے قومی زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس بات پر مشرقی پاکستان میں بسنے والے بنگالی خاصے معترض تھے۔
عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ”پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت کیا ہے فسانہ؟“ میں لکھتے ہیں کہ:
”4 اگست 1954 کو کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو بغیر کسی ردو بدل کے منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں کابینہ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ اس ترانے کی موجودگی میں اردو اور بنگالی کے دو قومی نغمات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔“
پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے خالق کا انتقال 5 فروری 1953 کو ہوا، جبکہ قومی ترانے کی دھن اور ترانے کی منظوری 4 اگست 1954 کو ہوئی۔ انہیں اپنی زندگی میں یہ دن دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ ان کی اس خدمت کا اعتراف بھی ایک بڑے عرصے بعد کیا گیا۔ جمیل زبیری اپنی کتاب ”یاد خزانہ ریڈیو پاکستان میں 25 سال“ کے صفحہ نمبر 21 پر قومی ترانہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:
”پاکستان کے قومی ترانے کی دھن محمد علی چھاگلہ (کتاب میں شاید پروف کی غلطی کی وجہ سے احمد غلام علی کی جگہ محمد علی لکھ دیا گیا ہے لہٰذا ہم نے من و عن لکھ دیا ہے) نے بنائی۔ اس کے بعد اس دھن پر ترانے لکھنے کے لیے ملک کے تمام شعراء کو مدعو کیا گیا اور سب سے بہتر ترانے کا فیصلہ کرنے کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔
"جب چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن ریڈیو پاکستان میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے سنی تو انہوں نے سب سے پہلے نہال عبداللہ کمپوزر وغیرہ کو بٹھا کر اس دھن کو موسیقی کی زبان میں ”بانٹا“ اور پھر اس پر سب سے پہلے ترانے کے بول لکھے۔ اسی دوران میں حفیظ جالندھری اور دیگر شعراء کے لکھے ہوئے ترانے موصول ہوگئے۔ سارے ترانے کمیٹی کے سامنے رکھے گئے اور کمیٹی نے حفیظ جالندھری کے ترانے کو منظور کر لیا۔
"کہتے ہیں کہ بخاری اس پر کافی ناراض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے انہوں نے ترانہ لکھا۔ بہر حال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تھا۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان کے انگریزی پروگراموں کی سپروائیزر مسز فیلڈ برگ (Feld Berg) نے اس کی orchestration کرنے اور notation تیار کرنے کے لیے لندن بھیج دیا۔ جب یہ چیزیں تیار ہو کر ترانہ واپس آیا تو ریڈیو پاکستان میں اس کی ریکارڈنگ ڈائریکٹر جنرل بخاری اور حمید نسیم نے مل کر کی۔ گانے والوں میں نہال عبداللہ، دائم حسین، نظیر بیگم، رشیدہ بیگم، تنویر جہاں، کوکب جہاں، اور چند دیگر فنکار شامل تھے۔ اس طرح ریڈیو پاکستان نے ملک کا قومی ترانہ تیار کیا۔“