نقطہ نظر

سوات کا کوہستان

سوات اپنے دلکش نظاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھا لیکن پچھلے کئی سالوں سے صرف بدامنی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ سوات خیبر پختونخواہ میں کسی شہر کا نام ہے، حالانکہ ایسا ہے نہیں۔ صوبے میں سوات نام کا کوئی شہر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ضلع کا نام ہے جو کہ 1969 سے پہلے ایک الگ ریاست ہوا کرتی تھی۔

ماضی میں سوات اپنی خوبصورتی، حسین وادیوں، پہاڑی چراگاہوں،اور دلکش نظاروں کی وجہ سے دُنیا بھر میں مشہور تھا، لیکن بدقسمتی سے سوات پچھلے کئی سالوں سے صرف بدامنی اور دہشتگردی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ سوات پھر سے پُرامن ہے، لیکن اب بھی لوگ یہاں آنے سے گھبراتے ہیں۔

جب سے ریاست سوات پاکستان میں ضم ہوئی ہے، تب سے پورے ضلع کی ترقی تیزی سے تنزلی میں تبدیل ہوئی۔ سوات کوہستان سیاحوں کی منزل ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نظرانداز علاقے رہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ احساسِ محرومی کا شکار ہیں.

علاقے میں سڑکوں کی بری حالت ہے، جو تقریباً پانچ سال گزر جانے کے باوجود بھی مکمل طور پر تعمیر نہیں کی جا سکی۔ ان میں ایک چکری سے بحرین تک سڑک پر کام مکمل ہوا ہے، لیکن بحرین سے کالام کی سڑک پر کوئی تعمیر یا بحالی کا کام دیکھنے کو نہیں ملا۔ 2010 میں سیلاب سے تباہ ہونے والی سڑک اب بھی تعمیر کی منتظر ہے، اس کے علاوہ حکومت یہاں موجود قدرتی وسائل کو بھی نظرانداز کرتی چلی آ رہی ہے۔ سوات کوہستان میں ہر سال ہزاروں درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے اور اس کو پھر غیر قانونی طور پر اسمگل کیا جاتا ہے۔ علاقے میں پانی کے بے پناہ وسائل ہیں لیکن علاقہ پھر بھی بجلی سے محروم ہے۔

سوات کوہستان میں سیاحت کے ان گنت مقامات ہیں لیکن ابھی تک کسی نے دریافت نہیں کیے ہیں۔ ہمارے حکمران ہمیشہ شہروں تک ہی محدود ہوتے ہیں اور ان کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ ان کے ملک میں بھی اتنے خوبصورت علاقے موجود ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح غیر مقامی لوگ بھی سوات میں موجود جنت نظیر وادیوں سے ناواقف ہے۔

سوات کوہستان وسیع و عریض وادیء سوات کا ایک خوب صورت اور پر کشش علاقہ ہے۔ اس کی حدود مدین اور بحرین کے درمیان واقع ایک حسین مقام ’ساتال‘ (مشکون گٹ) سے شروع ہوتی ہیں اور بحرین، کالام، اُتروڑ، گبرال، اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ کے سحر انگیز مقامات اور ان کی بلند و بالا برف پوش چوٹیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔

لیکن اس کے ساتھ مدین کے ساتھ یونین کونسل بشگرام بھی سوات کوہستان کا حصّہ ہے اور یہاں بھی لوگ توروالی زبان بولتے ہیں۔ یہ جغرافیائی طور پر سوات سے کوئی الگ علاقہ نہیں ہے بلکہ اپنی مخصوص زمینی ساخت، زبان، اور بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اُسے ’سوات کوہستان‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

مدین کو سوات کوہستان کا دروازہ کہا جاتا ہے اور اس مقام پر مہوڈنڈ اور گبرال سے نکلا ہوا دریائے سوات درال ندی کو اپنی بپھری ہوئی لہروں میں ضم کر لیتا ہے۔ سوات کوہستان کا پورا علاقہ سردیوں میں برف کی سپید چادر اُوڑھے رکھتا ہے اور یہاں سردیوں میں 10 سے 16 فٹ تک برف پڑتی ہے۔ اس کے پہاڑی علاقے برفانی باد و باراں کی لپیٹ میں رہتے ہیں، اور بیشتر علاقوں کے مکین اپنے اپنے گھروں میں شدید برف باری کے باعث محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔

سردی کے موسم میں بعض اوقات یہاں بڑے بڑے برفانی تودے پہاڑوں کی بلندیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے کی طرف آتے ہیں، جن سے بڑے بڑے مضبوط درخت بھی جڑ سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں زیادہ برف باری کی وجہ سے اُتروڑ، گبرال اور مٹلتان وغیرہ کی وادیوں سے دیگر علاقوں کا زمینی راستہ کٹ جاتا ہے اور کئی ہفتوں تک یہاں کے باشندے سوات کے مرکزی شہر مینگورہ تک آنے جانے سے قاصر رہتے ہیں۔

بحرین سمیت یونین کونسل بالاکوٹ اور مانکیال میں لوگ توروالی زبان بولتے، جبکہ کالام اور اس کے قرب و جوار کے مقامات کے لوگ گاؤری نامی کوہستانی زبان بولتے ہیں۔ تاہم پشتو زبان یہاں عام بولی جاتی ہے اور بیشتر لوگ اُردو بھی باآسانی بول اور سمجھتے ہیں۔ سوات کوہستان کا پورا علاقہ وادی سوات میں سب سے زیادہ حسین اور پُر کشش ہے۔

اکثر سیاح گاڑیوں میں آکر کالام، ملم جبہ، بحرین اور میاندم کی سیر کر کے واپس جاتے ہیں۔ ان کو یہ نہیں معلوم کہ سوات کی اصل خوبصورتی کہاں چُھپی ہوئی ہے۔

سوات کوہستان کو اگر حکومت ترجیح دیتی تو آج دُنیا بھر سے سیاح یہاں آتے۔ سوات کوہستان ضلع ہیڈکوارٹر سیدو شریف سے تقریبا 55 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع سوات میں بالائی پہاڑی وادی ہے.

یہ برف پوش چوٹیوں اور دریائے سوات کے دونوں اطراف پر خوبصورت موسم گرما کے چراگاہوں کے ساتھ ایک سرسبز و شاداب وادی ہے۔ یہ قدرتی خوبصورتی سے مالامال لیکن اتنا ہی شدید غربت، جہالت، پسماندگی، اور غفلت سے دوچار ہے۔ مقامی لوگ اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھراتے ہیں کیونکہ والیء سوات کے بعد اس علاقے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔

اس بلاگ میں وادیء سوات کے ان مقامات کی تصاویر ہیں جو کہ عام آدمی کے نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، اور صرف مقامی لوگ ہی اپنے مویشوں کے ساتھ موسم گرما میں ان پہاڑی چراگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔

پاکستان بھر کی طرح یہ علاقے بھی شدت پسندی سے متاثر ہوئے ہیں۔ طالبانائزیشن اور عسکریت پسندی سے قبل غیر ملکی سیاح یہاں آتے تھے اور مہینوں تک ان قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

یہ تصاویر تحصیل بحرین کے مانکیال اور گورنئی وادی کے موسم گرما کی چراگاہوں پر مشتمل ہیں۔ ہائیکرز یہاں پیدل سفر کر کے پانچ دن کے اندر ان تمام خوبصورت مقامات کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ وہ یہاں قدرتی حسن کے علاوہ مقامی ثقافت اور مقامی کھانوں کے ساتھ مقامی لوگوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔


بلاگر فری لانس لکھاری اور سماجی کارکن ہیں، اور سول سوسائٹی کی تنظیم آئی بی ٹی میں سینیئر ریسرچر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

مجاہد توروالی

بلاگر فری لانس لکھاری اور سماجی کارکن ہیں، اور سول سوسائٹی کی تنظیم آئی بی ٹی میں سینیئر ریسرچر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔