چوہدری محمد علی: 'بااثر بیوروکریٹ' یا 'معصوم وزیرِ اعظم'؟
چوہدری محمد علی تقسیم سے قبل برطانوی راج کے دور میں اکاؤنٹنٹ کے عہدے پر فائز تھے لیکن تقسیم کے بعد انہوں نے بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد متحدہ پاکستان کے چیف سیکریٹری بنے۔ وہ 1956 کے آئین کے خالق بھی تھے۔
ان کا شمار لیاقت علی خان کے بہت قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ قائدِ اعظم سے لیاقت علی خان کی آخری ملاقات میں بھی وہ ان کے ہمراہ تھے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد بنتی بدلتی حکومتوں کے عروج و زوال میں بھی شریک تھے۔
ان کی قائدِ اعظم سے آخری ملاقات کا ذکر محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ”مائی برادر“ میں بھی کیا ہے۔ اس کتاب میں فاطمہ جناح کے بقول چوہدری محمد علی اور لیاقت علی خان یہ دیکھنے آئے تھے کہ قائدِ اعظم مزید کتنے دن زندہ رہیں گے۔ قریب المرگ قائد سے اس ملاقات اور ان کی وفات کا ذکر چوہدری محمد علی نے اپنی کتاب ”ظہورِ پاکستان“ میں کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ نمبر 448 پر وہ لکھتے ہیں کہ:
”ان (قائد اعظم) کے انتقال سے چند روز قبل کوئٹہ میں ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ میں وہاں ان کی خدمت میں تنازع کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پیش کرنے اور آئندہ پالیسی کے لیے ان کی ہدایات حاصل کرنے کے لیے گیا تھا۔ وہ بسترِ علالت پر تھے۔ ان کی توانائی آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی لیکن ان کی اصابت فکر پہلے کی طرح ہی تھی۔ ان کا عزم اسی طرح بلند تھا، ان کی آنکھوں میں وہی پرانی چمک تھی، اور اپنی قوم کے مقدر میں انہیں وہی پہلے کی طرح یقین تھا، جو ہمیشہ ان کا منفرد وصف رہا ہے۔“
چوہدری محمد علی وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے ہمراہ قائدِ اعظم سے اہم معاملات پر ہدایات لینے کراچی سے کوئٹہ پہنچے تھے۔ جناح صاحب نے اپنا آخری وقت زیارت ریذیڈنسی میں گزارا تھا۔ تعجب کی بات ہے کہ چوہدری محمد علی پاکستان کے سیکریٹری جنرل تھے اور زیارت اور کوئٹہ کے درمیان فرق ہی محسوس نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اس ملاقات کے متعلق جناح صاحب کے کسی بھی جملے کا حوالہ دینا مناسب نہیں سمجھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناح صاحب کے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کیا خیالات تھے۔ انہوں نے ایسے شخص، جس کی توانائی آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی، کی آنکھوں کی چمک سے اس کے خیالات کا اندازہ کر لیا۔ یہ سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا، بلکہ جناح صاحب کی وفات کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
”11ستمبر 1948 کو انہیں (قائدِ اعظم) کراچی لایا گیا اور اسی دن شام کو انہوں نے 72 سال کی عمر میں داعیء اجل کو لبیک کہا۔“
چوہدری صاحب جو کہ پاکستان کے سیکریٹری جنرل تھے، اس بات سے بھی ناواقف تھے کہ محمد علی جناح کو جب پرواز تشویش ناک حالت میں لے کر کراچی پہنچی تو ایئرپورٹ پر کوئی سرکاری اہلکار (بشمول چوہدری صاحب کے) موجود نہ تھا۔ جناح صاحب کو لینے کے لیے ایک ہی ایمبولینس بھیجی گئی تھی جو کہ راستے میں قائدِ اعظم سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ اس طرح کے اور بھی کئی سوالات ہیں جو ان کی 'معصومیت' کو مزید یقینی بناتے ہیں۔
پیر علی محمد راشدی نے اپنی کتاب ”رودادِ چمن“ میں چوہدری محمد علی کی اس دروں بینی کا ذکر کیا ہے کہ انہیں جناح صاحب کی وفات کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ جناح صاحب کا منظورِ نظر جوگندر ناتھ منڈل کس قدر "ملک دشمن" تھا۔ چوہدری محمد علی ”ظہورِ پاکستان“ کے صفحہ نمبر 439 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
”مرکزی کابینہ کو صرف ایک دھچکا لگا، جب وزیرِ محنت جوگندر ناتھ منڈل بھاگ کر ہندوستان چلا گیا۔ بنگال کے ہندو اچھوتوں کے رہنما کی حیثیت سے اس نے پاکستان کی جدوجہد میں قائدِ اعظم کا بڑی وفاداری سے ساتھ دیا تھا۔ قائدِ اعظم کی وفات کے بعد اس کا رویہ بتدریج تبدیل ہوتا گیا۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کیے اور اسے آمادہ کرنے لگے کہ وہ ان کی قیادت بھی سنبھال لے۔
"اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ہائی کمیشن اور منڈل کے مابین بھی رشتے استوار ہونے لگے۔ لیاقت علی خان اس صورتِ حال سے باخبر تھے اور میں بھی احتیاطی تدابیر سے کام لے رہا تھا کہ زیادہ رازدار دستاویزات اس کے ہاتھ نہ لگیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ منڈل کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس کی نگرانی کی جارہی ہے۔ وہ ڈر گیا اور بھاگ کر ہندوستان چلا گیا۔“
جوگندر ناتھ منڈل کی حب الوطنی اپنی جگہ، انہیں تو قائد اعظم کی 11 ستمبر والی تقریر پر بھی شکوک و شبہات تھے۔ انہیں یہ گمان تھا کہ جناح صاحب نے جوشِ جذبات اور جوشِ خطابت میں جس طرح مسلمانوں اور ہندوؤں کو برابر قرار دیا تھا، وہ مناسب نہ تھا۔ لہٰذا تقریر ختم ہوتے ہی نوکر شاہی متحرک ہو گئی اور تقریر کا پورا متن اخبارات میں شائع ہونے سے روکنے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔
ان تمام افراد کی بد نصیبی یہ تھی کہ اس بات کا علم روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو ہوگیا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر یہ سب کس کے حکم پر ہورہا ہے۔ کیا یہ جناح صاحب کے اپنے حکم پر کیا جا رہا ہے یا پھر کسی اور کی ہدایات سے ہورہا ہے۔ معروف صحافی ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ”صحافت پابندِ سلاسل“ کے صفحہ نمبر 152 اور 153 پر اس مختصر واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
”الطاف حسین یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون شخص یہ عبارت حذف کروانا چاہتا ہے۔ مجھے مجید ملک کو تلاش کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ میں نے انہیں الطاف حسین کا پیغام پہنچایا۔ ملک صاحب نے ”چوہدری محمد علی“ کو فون کیا، جو اس وقت کیبینٹ ڈویژن کے سیکریٹری تھے۔ ان سے گفتگو پوری کرنے کے بعد ملک نے مجھے فون پر کہا کہ ”یہ کوئی ایڈوائس نہیں بلکہ صرف ایک رائے ہے۔ قائد کی تقریر کو سینسر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔“ اور کہا کہ ”ایسا فیصلہ کون شخص کر سکتا ہے؟“
"جب میں واپس دفتر آیا اور یہ سب الطاف حسین کو بتایا تو یقین کیجیے کہ وہ میز پر ہاتھ مار مار کر ہنسنے لگے۔“
ضمیر نیازی چوہدری صاحب کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ:
”1949 سے 1958 تک کے نام نہاد جمہوری دور میں بھی سیاست دان ملک کا انتظام چلانے میں آزاد نہیں رہے۔ جو شخص اس وقت بیوروکریسی کی مشینری کا انچارج تھا، وہ چوہدری محمد علی تھے۔“
چوہدری محمد علی کی صلاحیتیں اپنی جگہ، مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہ پاکستان میں حکومتیں تبدیل کرنے میں شریک ہوں یا نہ ہوں، ان واقعات کے عینی گواہ ضرور تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”مسلم لیگ کا دورِ حکومت“ کے صفحہ نمبر 244 پر لکھتے ہیں:
”علاوہ ازیں چوہدری محمد علی نے مصنف کو ایک ذاتی ملاقات میں مزید بتایا کہ جب بوگرہ کو غلام محمد کے سامنے لایا گیا تو غلام محمد نے تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال لیا اور جب تک بوگرہ نے اس کی تجویز سے اتفاق نہ کر لیا، گورنر جنرل اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب یہ کارروائی ہورہی تھی تو ایوب خان ریوالور ہاتھ میں پکڑے پسِ پردہ کھڑے تھے.“
چوہدری محمد علی ایک با اثر بیوروکریٹ تھے۔ لیاقت علی خان سے لے کر غلام محمد تک ان کا شمار فیصلہ ساز ٹولے کے اہم ارکان میں ہوتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ملک کو آئین کا تحفہ دیں تاکہ ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ ان کے آئین میں صدر کا عہدہ سب سے اعلیٰ تھا لیکن اس دستور میں ایک قومی اسمبلی کی گنجائش بھی تھی۔ 2 مارچ 1956 کو گورنر جنرل نے اس آئین کی منظوری دی اور 23 مارچ کو صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اسکندر مرزا کے صدر بنتے ہی محمد علی کو یہ احساس ہوگیا کہ ان کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ آخر کار ستمبر 1956 میں ہی چوہدری محمد علی نے استعفیٰ دے دیا۔
ایوب خان اپنی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کے صفحہ نمبر 91 اور 92 پر لکھتے ہیں:
”چوہدری محمد علی نے جیسے تیسے آئین تیار کرلیا جو 23 مارچ 1956 کو نافذ کیا گیا۔ یہ بڑی مایوس کن دستاویز تھی۔ وزیرِ اعظم، جو اس امر کے سخت متمنی تھے کہ انہیں تاریخ میں آئین کے مصنف کی حیثیت سے یاد رکھا جائے، نے اپنی کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کے نظریات کو اس آئین میں سمولیا تھا۔ آئین کیا تھا، بس چوں چوں کا مربہ تھا۔“
یہ آئین جس طرح کا بھی تھا، ایوب خان کو بنیادی اعتراض ایک بات پر تھا کہ اس آئین میں واضح طور پر اختیارات کی تقسیم کردی گئی تھی۔ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ:
”اس آئین نے اقتدار کو صدر، وزیرِ اعظم اور اس کی کابینہ اور صوبوں میں تقسیم کر کے اس کی مرکزیت ہی کو نیست و نابود کر دیا تھا، اور کسی کو صاحبِ اختیار نہیں رہنے دیا تھا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس شخص نے آئین بنایا وہی اس کا پہلا شکار بنا۔
"اس زمانے میں ایک دفعہ میں نے انہیں بڑی بے بسی کی حالت میں ان کے دفتر میں دیکھا۔ چونکہ وہ وزارتِ دفاع کا قلم دان بھی خود سنبھالے ہوئے تھے، اس لیے مجھے ایک دفاعی سلسلے میں ان سے ملنے کے لیے جانا پڑا۔ انہوں نے مجھ سے کہا ”میری جماعت نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ بس اب معاملہ ختم ہے۔“
"میں نے ان کی ہمت بندھانے کے لیے چند الفاظ کہے مگر ان کی تشفی نہ ہوئی۔ ”نہیں نہیں۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ صورت اختیار کر گیا ہے۔ تم یہ کام کیوں نہیں سنبھال لیتے، اور مجھے اس سے چھٹکارہ کیوں نہیں دلا دیتے؟ میں نے کہا ”دیکھیے ان باتوں کا ذکر مجھ سے نہیں اپنے صدر سے کیجیے اور اس الجھن سے نکلنے کا کوئی مناسب طریقہ سوچیے۔“ "
سیاست دان اور بیوروکریٹ میں ایک نمایاں فرق جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت واضح ہے، وہ ہے عوامی اور غیر عوامی۔ سیاست دان عوامی ہوتا ہے اور بیوروکریٹ غیر عوامی۔ ایم ایس وینکٹے رامانی کی کتاب ”پاکستان میں امریکہ کا کردار“ (جس کا اردو ترجمہ قاضی جاوید نے کیا ہے) میں ایوب خان اور چوہدری محمد علی کی اس ملاقات کے بارے میں ایک معنی خیز جملہ ہے:
”اگر ایوب خان کا بیان درست ہے تو پھر جمہوریت سے چوہدری محمد علی کی وابستگی کا پول بھی کھل جاتا ہے۔“
چوہدری محمد علی اپنی کتاب ”ظہورِ پاکستان“ کے صفحہ نمبر 453 پر انتہائی انکساری کے ساتھ آئین کی منظوری کے بارے میں لکھتے ہیں:
”آئین سازی کا کام لشتم پشتم چلتا رہا، حتیٰ کہ اکتوبر 1954 میں آئین ساز اسمبلی ہی توڑ دی گئی۔ اگلے سال ایک نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب عمل میں لایا گیا، جس نے ہمت کے ساتھ اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور 6 ماہ کے اندر اسے مکمل کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اسی قرارداد (قراردادِ مقاصد) پر مبنی تھا، جسے لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا۔ اس آئین کا نفاذ 23 مارچ 1956 سے عمل میں لایا گیا۔ اس آئین کا سنگِ بنیاد، جسے وزیرِ اعظم کے طور پر مجھے ملک کے اندر پیش کرنے کی عزت حاصل ہوئی، ہر شعبے، انتظامی، اقتصادی اور سیاسی میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین مساوی شراکت تھا۔“
ان کے یہ خیالات اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ چوہدری صاحب کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے کمال دلیری کے ساتھ حکومتیں توڑنے اور بنوانے میں نوکر شاہی کا ساتھ دیا۔ وہ حکمرانوں کے اقدامات کا ہر صورت میں ساتھ دیتے تھے۔ وہ ایک عوامی سیاست دان نہیں تھے اور نہ ہی انہیں اس بات کا تجربہ تھا کہ عوام کے احتجاج سے کس طرح نمٹا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک عوامی احتجاج سے گھبرا کر انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس واقعے کی کہانی نعیم احمد نے اپنی کتاب ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 100 اور 101 پر یوں بیان کی ہے:
”وزیرِاعظم جس نے کرسی چھوڑ دی: آپ (چوہدری محمد علی) نے جس صبح کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا، اس سے ایک رات پہلے ایک جلوس وزیرِ اعظم ہاؤس آیا۔ وہ جلوس کراچی کے آئی جی پولیس گریس کے خلاف تھا۔ گریس کے خلاف لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ رات کا وقت تھا۔ جلوس بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔ سیکیورٹی افسر نے مجھ سے (جو اتفاق سے اس وقت رات کی ڈیوٹی پر تھا) کہا کہ جلوس کے بارے میں وزیرِ اعظم کو اطلاع کر دی جائے۔ وزیرِ اعظم صاحب اس وقت تک اپنے کمرے کا دروازہ بند کر چکے تھے۔ بجائے اس کے کہ سیکیورٹی افسر وزیرِ اعظم کو مطلع کرنے خود جاتے، انہوں نے مجھ پر ذمہ داری ڈال دی کہ چوہدری صاحب کو جلوس کے بارے میں اطلاع دو۔“
وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد چوہدری صاحب نے ”نظامِ اسلام پارٹی“ تشکیل دی۔ انہوں نے ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور اس دوران جلسے جلوسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ ایک بار کرنل مجید ملک، جو مرکزی اردو بورڈ لاہور کے ڈائریکٹر تھے، نے جب چوہدری صاحب سے یہ سوال کیا کہ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ بڑی آسانی سے چھوڑ دی، اب جلوسوں میں کیوں شرکت کرتے ہیں؟ ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ کے صفحہ نمبر 102 پر درج ہے کہ چوہدری صاحب نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا:
”مجھے ڈر ہے کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ محمد علی نے تمہیں پاکستان میں کیا مقام دیا تھا، لیکن تم نے میرے پاکستانی بندوں کے لیے کیا کیا؟ چوہدری صاحب نے فرمایا یہ سوچ کر مجھے خوف آتا ہے لہٰذا میں ان جلسے جلوسوں کی قیادت اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے روز جواب دینے کے لیے کر رہا ہوں تا کہ کہہ سکوں کہ اے اللہ! میں نے تو مقدور بھر کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت بحال ہوجائے باقی آئندہ کیا ہوگا تو غیب کا علم تُو ہی جانتا ہے۔“
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔