پاکستان

لشکرِ جھنگوی کے سربراہ 14ساتھیوں سمیت ہلاک

ملزمان کومبینہ طورپر اسلحے کی نشاندہی کیلئے مظفرگڑھ لے جایاگیا، جہاں ملک اسحاق اور ان کے 2 بیٹوں نے فرار ہونے کی کوشش کی
|

مظفر گڑھ: پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر مظفر گڑھ میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق ، اپنے 2 بیٹوں اور 11 ساتھیوں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔

ڈان نیوز کے مطابق کالعدم تنظیم کے سربراہ ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں عثمان اور حق نواز کو اسلحے کی نشاندہی کے لیے مظفرگڑھ لے جایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : لشکر جھنگوی سے کوئی تعلق نہیں، فوج

مظفر گڑھ میں شاہ والا میں پولیس پر دہشت گردوں اور اشتہاریوں نے فائرنگ کی۔

فائرنگ کے تبادلے میں چھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

واضح رہے کہ ملک اسحاق اور ان کے دونوں بیٹوں کو ایک ہفتہ قبل کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (ای ٹی ڈی) نے گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں : کوئٹہ میں دھماکا، ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کر لی

گرفتاری کے بعد تفتیش کے دوران انکشاف ہونے پر مظفر گڑھ میں شاہ والا میں اسلحہ برآمد کرنے کے لیے لے جایا گیا۔

سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ملک اسحاق کو فرار کروانے کے لیے حملہ کیا گیا مگر اس دوران مبینہ مقابلہ ہوا جس میں عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ 6 اہلکار زخمی ہو گئے۔

سی ٹی ڈی کے ترجمان نے بتایا کہ تمام افراد کا تعلق کالعدم لشکر جھنگوی سے تھا اور زیر حراست افراد کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے مظفر گڑھ لے جایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس مظفر گڑھ سے نشاندہی کے بعد اسلحہ برآمد کرکے واپس آ رہی تھی، جب 12 سے 15 مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر آئے، جو اسلحے کے زور پر ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کو موٹر سائیکلوں پر ساتھ لے جانے کامیاب بھی ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں : مستونگ میں بس پر حملہ، لشکر جھنگوی ذمہ دار

مبینہ مقابلے کے حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے فرار ہونے کے بعد کاؤنٹر ٹیررزم پولیس کے مقامی ایس ایچ کو مطلع کیا گیا جو کہ اس وقت اسی علاقے میں گشت پر تھے۔

سی ٹی ڈی ترجمان کے مطابق ایس ایچ او نے مفرور ملزمان کا تعاقب کیا تعاقب کے دوران ہی مقابلہ ہوا جس سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جن کو اسپتال منتقل کیا گیا۔

ہلاکتوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 14 عسکریت پسند مقابلے میں مارے گئے جن میں ملک اسحاق، ان کا نائب غلام رسول شاہ اور دیگر حملہ آور بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں : لشکر جھنگوی کے دو شدت پسندوں کو پھانسی

حملہ آوروں سے بھی بڑے پیمانے پر ہتھیار برآمد ہوئے ہیں ، حملے کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

تمام ہلاک شدگان کی میتیں پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کی گئیں جبکہ ملک اسحاق اور ان کے بیٹوں کی لاشیں رحیم یار خان منتقل کی جائیں گی جو ان کا آبائی علاقہ ہے۔

خیال رہے کہ لشکر جھنگوی کو پاکستان کی فرقہ وارانہ طور پر سب سے متشدد تنظیموں میں شمار کیا جاتا تھا جس پر 90 کے عشرے میں دیگر فرقوں کے افراد قتل کرنے کے الزامات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : لشکرِ جھنگوی کے رہنما ملک اسحاق گرفتار

لشکر جھنگوی کا تعلق عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے بھی تھا۔

جنرل پرویز مشرف نے 10 سال قبل اپنے دور حکومت میں لشکر جھنگوی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق پر قتل کے متعدد مقدمات تھے، ان کو 1997 میں گرفتار کیا گیا تھا البتہ 14 سال جیل میں رہنے کے بعد 2011 میں ان کو جیل سے رہائی مل گئی۔

2011 کے بعد سے ملک اسحاق کو عمومی طور پر نظر بند ہی رکھا گیا۔

2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کے بعد ان کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔

یاد رہے کہ ہزارہ برادری پر پہلا حملہ 10 جنوری 2013 میں ہوا تھا جس میں 92 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 16 فروری 2013 کو ہونے والے حملے میں 89 افراد مارے گئے تھے، ان حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے ہی قبول کی تھی۔

ملک اسحاق کو مبینہ طور پر سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی مانا جاتا ہے۔

2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے میں 9 کھلاڑی زخمی ہوئے تھے، جبکہ اس میں 8 پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان 2011 کرکٹ ورلڈ کپ سے محروم ہو گیا تھا۔