پاکستان

’لاپتہ‘ نیوی افسر کو کورٹ مارشل کا سامنا

افسرکی بازیابی کی دائرپٹیشن کاجواب دیتےہوئے نیوی حکام کاکہناہےکہ ملزم کوڈاکیارڈپرحملےکےالزام میں کورٹ مارشل کاسامناہے۔

اسلام آباد: پاکستان نیوی کے ’لاپتہ‘ افسر کا مبینہ طور پر گذشتہ سال کراچی ڈاکیارڈ پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

نیوی کے ’لاپتہ‘ ہونے والے افسر نائب لیفٹیننٹ حافظ احسان اللہ ساجد کی اہلیہ صفیہ اسمٰعیل نے گذشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے شوہر کی بازیابی کے لئے ایک پٹیشن دائر کی تھی۔

ساجد کی اہلیہ نے 10 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک دائر کی جانے والی پٹیشن میں دعویٰ کیا تھا کہ اس کے شوہر کو بغیر کسی الزام کے بغیر حراست میں لیا ہے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ 6ستمبر 2014 کو سادہ لباس لوگ ان کے گلشن اقبال میں واقع گھر آئے اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔

مزید پڑھیں: ڈاکیارڈ حملہ، دہشت گرد نیوی فریگیٹ ہائی جیک کرنے کے خواہشمند تھے

مذکورہ درخواست کی سماعت کے دوران نیوی کے حکام نے لاپتہ نیوی افسر کی ان کی حراست میں موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی سے مسئلے کی حساسیت کے باعث ’انھیں‘ ان کے چیمبر میں سننے کی درخواست کی تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ نیوی کے افسر ساجد کو کورٹ مارشل کا سامنا ہے اور اسے بہت جلد نیوی کے ٹریبونل میں پیش کیا جائے گا۔

عدالت نے نیوی حکام کو ہدایات جاری کیں کہ وہ حراست میں لیے گیے افسر سے اس کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت دی جائے۔

سماعت کے بعد حراست میں لیے جانے والے نیوی کے ’لاپتہ‘ افسر کی ملاقات اس کے اہل خانہ سے نامعلوم مقام پر کروادی گئی۔

ساجد کے اہل خانہ کے وکیل ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے ڈان کو بتایا ہے کہ اس کو کراچی میں نیوی ڈاکیارڈ پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں حملے کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی ڈاکیارڈ حملہ،افغانستان فرار ہونےوالے 3نیول افسران گرفتار

انھوں نے کہا کہ نیوی کے حکام نے ساجد کے حوالے سے کسی قسم کی چارج شیٹ اور مقدمے سے متعلق دستاویزات فراہم نہیں کی ہے جس کی وجہ سے وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ نیوی افسر کو گواہ کے طور پر حراست میں لیا گیا ہے یا کہ اسے ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے حملہ آوروں نے پی این ایس ذوالفقار کو اغوا کرکے امریکی نیوی کی فیول شپ پر حملے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔

خیال رہے کہ ساجد کو 6 ستمبر 2014 کو مبینہ ڈاکیارڈ حملے سے چند روز بعد حراست میں لیا گیا تھا اور نیوی حکام نے 9 ستمبر کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ چھ دہشت گردوں نے کراچی ڈاکیارڈ پر حملے کی کوشش کی ہے، جسے ناکام بنا دیا گیا ہے۔

اس کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کو اندرونی مدد حاصل تھی۔

وزیردفاع خواجہ آصف نے اس وقت اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حملے میں ’نیوی کے کچھ کمیشن افسر اور باہر کے لوگ‘ ملوث تھے۔

مذکورہ حملے میں ایک نیول افسر اور دو حملہ آور ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی دیکھیے: کراچی: نیوی ڈاکیارڈ پر حملے کی تصدیق، دوشدت پسند، ایک افسر ہلاک

حملہ آوروں میں نیوی سابق افسر اویس جاکھرانی، جو کہ اسسٹینٹ انسپکٹر جنرل علی شیر جاکھرانی کے بیٹے ہیں، بھی شامل تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں ملوث ہونے کے شبہے میں اس وقت نیوی کے 3 افسران کو حراست میں لیا گیا تھا۔

وزارت دفاع کے ایک سینئر عہدیدار نے ساجد پر ڈاکیارڈ حملے کے الزامات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفتیش تاحال جاری ہے اور حساس ادارے کے حکام مزید معلومات جمع کررہے ہیں۔

یہ پہلی بار نہیں کے کسی نیوی افسر کو دہشت گردی میں ملوث قرار دے کر گرفتار کیا گیا ہو، اس سے قبل نیوی کے ایک جونیئر افسر اسرار الحق نے مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق کے الزام میں کورٹ مارشل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اس پر الزام تھا کہ وہ نیوی پر متعدد حملوں اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیوی کے سیئنر افسران کو اغوا کرنے میں ملوث ہے۔

اس خبر کے حوالے سے مزید لنکس یہاں دیکھیے:

ڈاکیارڈ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کر لی

'ڈاکیارڈ حملہ: 'دہشت گرد دیوار میں سوراخ کرکے آئے