نقطہ نظر

غریبوں کی مسیحا صرف فوج؟

عوام کو جو بھی مدد ملی ہے، وہ فوج اور رینجرز کی جانب سے ہے جس کا کریڈٹ صوبائی حکومت کو بالکل بھی نہیں جاتا۔

یہ الفاظ لکھتے ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت تک کراچی میں 5 دنوں میں کم از کم 950 لوگ شدید گرمی سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتنے ہی یقین سے میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ تعداد کم از کم تعداد ہے، کیونکہ سینکڑوں مردہ افراد جو براہِ راست ایدھی مردہ خانے لائے گئے ہیں، ان کی تعداد اس میں شامل نہیں ہے کیونکہ اب تک یقینی نہیں کہ وہ گرمی سے ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن ہر گزرتے روز اتنی بڑی تعداد میں لاشوں کو آتا دیکھ کر ہمیں کافی حد تک اندازہ ہوگیا ہے کہ قاتل کون ہے۔

ان پانچ دنوں میں میں نے تمام ذمہ داران، یعنی سندھ حکومت، وفاقی حکومت، اور مقامی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور لاتعلقی اور لاابالی پن دیکھا ہے۔

شدید گرمی اور اوپر سے شدید لوڈ شیڈنگ، لگتا ہے کہ صوبائی حکومت تو کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک بھی قدم دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔ یہ سب لوگ اپنے ٹھنڈے اور آرام دہ گھروں میں خاموشی سے لوگوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں۔

کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں، اور نہ ہی کوئی سرکاری کال سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ مردہ افراد کی تعداد معلوم کرنے کے لیے کس نمبر پر فون کیا جائے۔ ہر کوئی صرف ہسپتال کے نمائندوں کی جانب سے بتائی گئی تعداد پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہے۔

پڑھیے: دھماکوں اور گولیوں کے بعد اب گرمی

حکومت کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اموات کی بڑی تعداد ہسپتالوں میں نہیں ہو رہیں، بلکہ لوگوں کو لایا ہی مردہ حالت میں جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا کچھ مددگار نہیں ہوگا کیونکہ ہسپتالوں میں لوگ نہیں مر رہے۔

ریاستی سطح پر عوام کو جو بھی مدد ملی ہے، وہ فوج اور رینجرز کی جانب سے ہے، اور اس کا کریڈٹ صوبائی حکومت کو بالکل بھی نہیں جاتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتے ہیں، وہ ہر دفعہ اسی ادارے کی مدد لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو ان کے مطابق جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔

حکومت کا چھوڑا گیا خلا فوج کی جانب سے پُر کیا جانا پاکستان، خصوصاً سندھ میں اب اتنی عام بات ہوگئی ہے کہ کسی کو یہ عجیب بھی نہیں لگتا۔ ایسے حالات میں فوجی کیمپ نعمت سے کم نہیں ہوتے۔

لیکن پھر بھی ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے جلسوں میں کی جانے والی دھواں دھار تقریروں میں اسے 'مداخلت' نہیں قرار دیتی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آفات کے وقت فوج وہ کام نہیں کرتی جو آپ کو کرنا چاہیے، صرف اس لیے کہ آپ نااہل ہیں اور دہائیوں تک حکومت جاری رہنے کے باوجود آپ ریسکیو کا بنیادی نظام بھی قائم نہیں کر سکے؟

مجھے تو یہ لگتا ہے کہ آپ اسے مداخلت صرف تب قرار دیتے ہیں، جب آپ کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے، ورنہ جب یہ آپ کی نااہلی پر پردہ ڈالے، تو آپ اسے بخوشی خوش آمدید کہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: لو سے حفاظت اور اس کا علاج کیسے؟

ایسے وقت میں جب ملک کا سب سے بڑا شہر بحران کی زد میں ہے، وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو الزام دے رہی ہے، اور صوبائی حکومت آدھا الزام وفاقی حکومت اور آدھا کے الیکٹرک پر ڈال رہی ہے (وزیرِ اعلیٰ سندھ نے تو کے الیکٹرک کے خلاف کل دھرنے کی قیادت بھی کی تھی)، جبکہ فوج شہر بھر میں ریلیف سینٹر قائم کر کے شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے مارے لوگوں کو راحت پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسے حکومتوں کی نااہلی کی بدترین مثال نہ کہیں، تو اور کیا کہیں؟

آخرکار چوتھے دن وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ایک میٹنگ بلائی، اور سرکاری اداروں اور بازاروں میں بجلی کی بچت کر کے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے احکامات جاری کیے۔ چلیں، نہ ہونے سے کچھ تو اچھا ہے۔

جہاں تک مقامی سیاسی جماعتوں کی بات ہے تو میں نے ان کی صفوں میں لوگوں کی مدد کے لیے کوئی تحرک نہیں دیکھا۔ اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس آفت سے سب سے زیادہ متاثر اس شہر کا غریب طبقہ ہوا ہے۔

جانیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں

بنگلوں میں رہنے والے لوگ شاید ہی کبھی لو لگنے سے مرتے ہوں۔ ٹی وی پر آ کر لوگوں کو زیادہ پانی پینے کا مشورہ دینا کچھ مددگار نہیں ہوگا، اور نہ ہی قومی اسمبلی میں کی جانے والی جذباتی تقریریں۔

ہم آپ سے قدرت کو شکست دینے کے لیے نہیں کہہ رہے۔ ہم صرف اتنا کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نقصان کی شدت کم کرنے کے لیے کچھ تو کریں۔ وہ کریں جو کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، کیونکہ اقدامات بہرحال الفاظ سے زیادہ اثر انگیز ہوتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

محمد عمر حیات

عمر حیات ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: hayat_omer@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔