این جی اوز کے مالیاتی امور پر حکومتی گرفت مضبوط
اسلام آباد :اس وقت جب ایک بین الاقوامی این جی او کو کام کرنے سے روکنا کا تنازع سر اٹھا رہا ہے، اقتصادی امور ڈویژن (ای اے ڈی) نے بین الاقوامی غیر سرکاری اداروں (آئی این جی اوز) کو دستیاب فنڈز پر کنٹرول سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد انٹرنیشنل ڈونرز ایجنسیوں اور حکومت پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ آسکتا ہے۔
یہ بات ڈان کو جمعے کو ذرائع نے بتائی۔
ای اے ڈی کو پاکستان میں کام کرنے والی تمام آئی این جی اوز سے ' درکار' دستاویزات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ان کی فنڈنگ کے ذرائع اور مستقبل میں ان کو خرچ کیے جانے پر نظر رکھنا چاہتی ہے۔
ای اے ڈی کو درکار بارہ دستاویزات جیسا کہ اس کی آفیشل ویب سائٹ سے عندیہ ملتا ہے، ان میں سے نصف ان این جی اوز کے مالیاتی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔
مثال کے طور پر جب ایک آئی این جی او ای اے ڈی کے ساتھ ایک مفاہمتی یاداشت کے لیے درخواست دیتی ہے، تو درخواست کنندہ کو گزشتہ تین برسوں کی آڈٹ رپورٹس، گزشتہ پانچ برسوں کے ٹیکس گوشواروں کی نقول، گزشتہ تین سال کے مالیاتی بیانات، ایسے شواہد کہ وہ ادارہ ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کررہا ہے، تمام مجوزہ پراجیکٹس کی پروفائل پاکستان میں ان کے مخصوص مقامات کی تفصیلات کے ساتھ، انسانی اور مالیاتی وسائل کی تفصیلات، گنجائش اور ہر پراجیکٹ اور ہر ڈونر کی جانب سے فنڈنگ یا عطیات کے ذرائع جیسی رپورٹس جمع کرانا ہوں گی۔
اس کے علاوہ اس ادارے کے حالیہ اور ممکنہ عملے کے اراکین (مقامی اور غیر ملکی)کی پروفائلز کی تفصیلات بشمول انتظامی اور آپریشنل گروپس کی تفصیلات، رجسٹریشن کا ثبوت یا جس ملک سے تعلق رکھتی ہے وہاں کی رجسٹریشن، ایسوسی ایشن یا آئین کا ایک میمو یا آرٹیکل، مقامی رہائش کا ثبوت (جیسے لیز ایگریمنٹ) اور اسلام آباد میں موجود متعلقہ سفارتخانے کے ایک صاحب اختیار افسر کی توثیق جیسی تفصیلات بھی ای اے ڈی کو درکار ہوں گی۔
ایک سابق وفاقی سیکرٹری جو کہ ان شرائط کی تیاری کے عمل میں شامل رہے ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ بنیادی مسئلہ ' آف بجٹ' گرانٹس ہیں جو دیگر حکومتیں پاکستان کو فراہم کرتی ہیں۔
آن بجٹ گرانٹس کے برعکس جن کی رقوم حکومتی چینیلز کے راستے گزرتی ہیں، آف بجٹس گرانٹس دیگر ممالک اپنے منتخب کردہ اداروں کے ذریعے اپنی پسند کے پراجیکٹس پر خرچ کرتے ہیں۔
سابق سیکرٹری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس ملک میں آنے والی رقوم کی مکمل تصویر ہونی چاہئے چاہے وہ ' آف بجٹ' گرانٹس ہی کیوں نہ ہو، تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں ان رقوم کی آمد کے راستے کو ری اسٹرکچر کرنا مشکل ثابت ہوگا لہذا بین الاقوامی ڈونرز پر پابندی لگانے کا سوچا گیا " ان شرائط کو عائد کرنے کے پیچھے یہ خیال ہے کہ حکومت جس حد تک ہوسکے آئی این جی اوز کے آپریشنز پر کنٹرول حاصل کرسکے"۔
سابق سیکرٹری کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی آئی این جی او اپنے مخصوص مینڈیٹ سے تجاوز کرے تو حکومت کے پاس اس کے این او سی منسوخ کرنے کا اختیار موجود ہے ۔
حکومت کی جانب سے سیو دی چلڈرن کے خلاف حالیہ اچانک کارروائی کے حوالے سے سوال پر پاکستان ہیومینٹرین فورم (پی ایچ ایف) کی ایک پالیسی مشیر نرگس خان نے ڈان کو بتایا کہ فورم کو کے پاس کسی این جی او کے خلاف حکومتی فیصلوں سے متعلق سرکاری تصدیق موصول نہیں ہوئی۔
پی ایچ ایف پاکستان میں کام کرنے والی پچاس سے زائد آئی این جی اوز کا نمائندہ فورم ہے اور وہ بحران جیسے سیلاب وغیرہ میں انسانی ریلیف کے اقدامات کے حوالے سے تعاون کرتا ہے۔
نرگس خان کہتی ہیں " ہوسکتا ہے کہ آئی این جی او کی رجسٹریشن کا عمل سست اور اس میں شفافیت کی کمی ہو، پی ایچ ایف کو انسانیت کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور دیگر کارروائیوں پر پڑنے والے اثرات پر تشویش ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی معاونت حکومت کے مدعو کیے جانے پر فراہم کی جاتی ہے اور " پاکستان کے سب سے مظلوم افراد تک پہنچتی ہے جو آئی این جی اوز کے خلاف حالیہ فضاءسے متاثر ہوسکتی ہے"۔
ای اے ڈی کو درکار دستاویزات کے حوالے سے سوال پر نرگس خان نے کہا کہ آئی این جی اوز پہلے ہی حکومت کو تمام مطلوبہ دستاویزات فراہم کرچکی ہیں " پی ایچ ایف آئی این جی اوز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پالیسیوں کی تشکیل اوران پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور ہم تعاون میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعمیراتی اور شفاف شراکت داری کے خواہشمند ہیں"۔