جہلم کنارے تاریخی ورثہ
بے ترتیب باغات کے درمیان مصروف شہری زندگی سے دور سفید رنگ کے ایک چھوٹے سے گھر جس کا ٹیرس دریا کے سامنے کے رخ پر ہے، کے سامنے کے دروازے پر دو درخت جھک کر سایہ دیئے ہوئے ہیں، جالیوں والے سے دروازے سے آپ تہہ خانے میں پہنچتے ہیں جبکہ چکر دار زینہ آپ کو چھت پر لے جاتا ہے جہاں سے آپ دریائی پانی کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ چھت کے اوپر لگی تختی پر یہ الفاظ پڑھے جاسکتے ہیں ' رسول 1920 ' ۔
یہ پتھر کوٹھی ہے، ایک چھوٹا مگر ہوا دار ریسٹ ہاﺅس جو دریائے جہلم کے کنارے پر ضلع منڈی بہاﺅ الدین کے گاﺅں رسول میں واقع ہے۔ یہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں محکمہ زراعت کی جانب سے دریا کنارے تعمیر کیے گئے متعدد ریسٹ ہاﺅسز میں سے ایک ہے۔
دریائی پانی اب پیچھے ہٹ چکا ہے اور جو چیز آپ دیکھ سکتے ہیں وہ جھاڑیاں اور پودے ہیں، جب آپ ٹیرس سے نیچے دیکھتے ہیں تو دور آپ کو وہ ٹوٹی ہوئی لفٹ نظر آجائے گی جو دریا کے دوسرے کنارے پر جانے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
ٹیرس پر موجود ایک زینہ تہہ خانے میں جاتا ہے جس کی چھت بہت نیچے اور دیکھنے میں تنگ نظر آتا ہے۔
یہ ریسٹ ہاﺅس شکاریوں میں بہت مقبول ہے جو دریا پر بطخوں اور پرندوں کا شکار کرنے کے لیے آتے ہیں اور اس کا ٹیرس انہیں ایک اضافی فائدہ فراہم کرتا ہے۔
جہلم شہر سے پتھر کوٹھی کی جانب جاتے ہوئے ایک اور اسی سے ملتا جلتا ریسٹ ہاﺅس نظر آتا ہے۔ اس کے دروازے کے اوپر لگی سنگی تختی بھی پتھر کوٹھی جیسی ہے تاہم اس پر لکھا سال مختلف ہے جو 1899 ہے۔ یہ بھی دیگر ریسٹ ہاﺅسز کی سیریز کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔
رسول گاﺅں کی ایک اور معروف عمارت ایک صدی سے بھی پرانے ٹیک کالج ہے جس کی تعمیر 1912 میں ہوئی۔
جب آپ کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے، میں داخل ہوتے ہیں تو جو چند چیزیں سب سے پہلے نظر آتی ہیں وہ بڑی شاخوں والے پرانے درخت اور سرخ اینٹوں سے بنی عمارات ہیں۔ یہاں موجود عمارات میں سے بمشکل ہی کوئی ایسی ہو جس پر سرخ رنگ نظر نہ آئے۔
2012 میں کالج نے اپنی تعمیر کے سو سال مکمل ہونے پر جشن منایا تھا اور اپنے تمام فارغ التحصیل طالبعلموں کو مدعو کیا، ان میں سے بیشتر کا تعلق موجودہ عہد کے ہندوستان سے ہے۔
کالج کے اندر کچھ عمارات پر شیر کے سر والے مجسمے لگے ہیں جو کہ انیسویں اور بیسویں صدی کی برطانوی طرز تعمیرات کا مقبول رجحان ہے جو کہ وفاداری کی نمائندگی کرتے ہیں۔