کراچی: اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ، 43 افراد ہلاک
کراچی: سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بس پر مسلح افراد کے حملے کے نتیجے 43 افراد ہلاک اور 13 سے زائد زخمی ہوئے۔
صفورا چورنگی کے قریب سنسان مقام پر بس کو روکا گیا۔
بس میں 50 سے زائد افراد سوار تھے جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔
حملہ آور بس میں داخل ہوئے اور ڈرائیور کو گولی ماری بعد ازاں دیگر افراد کو نشانہ بنایا گیا۔
اکثر افراد کو سر پر گولیاں ماری گئیں۔
بس میں اسماعیلی کمیونٹی کے افراد سوار تھے-
حملے کی ذمہ داری داعش کی حامی کالعدم تنظیم جند اللہ نے قبول کی۔
|
آئی جی سندھ غلام حید جمالی نے بتایا کہ بس میں 60 کے قریب افراد سوار تھے جن میں سے 43 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ زخمیوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔
واقعہ کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ 3 موٹر سائیکلوں پر سوار6 دہشت گردوں نے بس میں گھس کرفائرنگ کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں 16 خواتین اور 27 مرد شامل ہیں۔
فائرنگ کے واقعہ میں استعمال ہونے والے اسلحے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کی جگہ سے نائن ایم ایم گولیوں کے خول ملے ہیں
ریسکیو ذرائع نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا کہ 'حملہ آوروں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں' ۔
عینی شاہد کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں میں سے 3 نے وردیاں پہنی ہوئی تھیں جبکہ 3 سادہ لباس میں تھے۔
|
ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بس میں اسماعیلی کمیونٹی کے افراد سوار تھے۔
ذرائع کے مطابق 3 موٹر سائیکلوں پر 6 مسلح افراد سوار تھے جنہوں نے بس کو پہلے روکا اور پھر بس میں داخل ہو کر پہلے ڈرائیور پر فائرنگ کی بعد ازاں سوار افراد کو نشانہ بنایا۔
بس معمول کے مطابق مسافروں کو لے کر الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل کے قریب فیڈرل- بی ایریا جا رہی تھی۔
سیکریٹری الاظہر گارڈن کا کہنا ہے کہ بس صبح 9 بجے روانہ ہوئی، جس پر ساڑھے 9 بجے حملہ کیا گیا۔
اطلاع ملنے پر پولیس اور رینجرز کے ساتھ ساتھ امدادی رضا کار متاثرہ مقام پر پہنچے اور امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ بس میں سوار افراد کراچی کے علاقے اسکیم 33 سے عائشہ منزل جا رہے تھے، ان کو صفورا چورنگی کے قریب غازی گوٹھ کے مقام پر سنسان مقام پر روکا گیا۔
حکام کے مطابق بس میں سوار افراد روزانہ اس مقام سے گزرتے تھے جبکہ معمول کے مطابق یہ افراد آج بھی عائشہ منزل جا رہےتھے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حملہ آور بس میں داخل ہوئے اور فائرنگ کی تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو نشانہ بنایا جا سکے
بس پر باہر کی جانب گولیوں کے نشانات موجود نہیں تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلح ملزمان نے بس کے اندر سے ہی فائرنگ کی۔
ذرائع کے مطابق ڈرائیور نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا اور گولی لگنے کے باوجود اسی حالت میں بس چلا کر قریب واقع نجی اسپتال پہنچائی، جہاں زخمیوں کو فوری طبی امداد دینا شروع کی گئی۔
کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے پر میمن میڈیکل سینٹر، سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال سمیت دیگر سرکاری اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے متاثرہ مقام سے شواہد جمع کرنا شروع کر دیئے۔
جند اللہ نے ذمہ داری قبول کی
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پاکستانی طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے شدت پسند گروپ جند اللہ نے واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی۔
جند اللہ کے ترجمان احمد مروت نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کراچی میں بس پر فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی۔
دوسری جانب بس سے انگریزی اور اردو زبان میں خطوط بھی ملے ہیں جن میں داعش کی جانب سے حملے کی زمہ داری قبول کی گئی۔
واضح رہے کہ جنداللہ کی جانب سے پاکستان میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات کیے گئے ہیں، جبکہ نومبر 2014 میں جنداللہ نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ پاکستان میں مقیم اسماعیلی برادری اور کالاش قبائل کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے اکثر و بیشتر دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔
گزشتہ برس فروری میں 50 منٹ کی ایک وڈیو میں ٹی ٹی پی میڈیا ونگ نے اپنی ویب سائٹ پر اسماعیلی مسلمانوں اور کالاش برادری کے خلاف ' مسلح جدوجہد' کا اعلان کیا تھا۔
ویڈیو میں ایک دہشت گرد نے کالاش برادری کے افراد کو دھمکاتے ہوئے کہا کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا پھر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
آئی جی نے رپورٹ طلب کر لی
انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس غلام حیدر جمالی نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو سے رپورٹ طلب کرلی۔
انھوں نے زخمیوں کو فوری طبی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مجرموں کی جلد از جلد گرفتاری کی ہدایات بھی دیں۔
ڈی ایس پی کی معطلی کا حکم
وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے بس پر فائرنگ کا نوٹس لیتے متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو فوری معطل کرنے کا حکم دیا۔
سید قائم علی شاہ نے واقعے پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا اور دہشت گردی میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کے احکامات بھی جاری کیے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کراچی میں بس پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔
'حملہ آوروں کو ڈاکو سمجھے تھے' ، زخمی خاتون کا پولیس کو بیان
صفورہ چورنگی کے قریب بس پر حملے میں زخمی ہونے خاتون کا نے پولیس کو بیان ریکارڈ کروایا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ بس کی روانگی کے چند منٹ بعد واقع ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان بس کے پچھلے گیٹ سے داخل ہوئے، ابتدائی طور پر تو سب یہی سمجھے کے ڈاکو ہیں اور لوٹ مار کرنے کے لیے بس میں چڑھے ہیں۔
زخمی خاتون کا مزید کہنا تھا کہ بس کے عقب میں موجود شخص نے فائرنگ کرنے کا حکم دیا، ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ شروع کی جبکہ وہ اردو میں احکامات دے رہے تھے۔
آرمی چیف کا دورہ منسوخی کا اعلان
کراچی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنا دورہ سری لنکا منسوخ کیا۔
|
اس بات کا اعلان انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کیا ۔
ڈان نیوز کے مطابق آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہنگامی دورے پر کراچی جائیں گے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف کراچی میں دہشت گرد حملے کے بعد پیدا ہونے والی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیں گے۔
سوگ کا اعلان
بس پر حملے میں معصوم افراد کی ہلاکت پر سندھ حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا۔
وزیر اعلی سندھ کی جانب ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ لاکھ اور زخمیوں کے لیے دو لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھی کراچی میں بس پر حملہ کی مذمت کرتے ہوئے جمعرات کو سوگ کا اعلان کیا۔
سیاسی رہنماؤں کی مذمت
کراچی میں بس پر فائرنگ کے نتیجے میں بے گناہ افراد کی ہلاکت پر صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے شدید مذمت کی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نےجاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کی ہے نوازشریف نے دہشت گردی کے اس واقعے کو ناقابل برداشت قراردیا اور سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے
پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری، امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر اعلی بلوچستان عبد المالک بلوچ، جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ ، عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید،پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سمیت دیگر رہنماؤں نے واقعے کو بدترین دہشت گردی قرار دیا ۔
ہندوستانی رہنماوں کے بیانات
ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھی کراچی میں بس پر حملے پر مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔
نریند مودی نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ کراچی میں بس پر حملہ قبل مذمت اور افسوسناک ہے، ہماری ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
|
انہوں نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے ساتھ ساتھ زخمیوں کی جلد صحت یابی کی امید بھی ظاہر کی۔
|
ہندوستان کی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی کراچی میں بس پر حملے کی مذمت کی ہے۔
ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھاکہ میں کراچی میں معصوم افراد کی ہلاکت کی شدید مذمت کرتا ہوں۔
|
انہوں نے مزید کہا کہ میں متاثرہ خاندانوں کی اظہار ہمدردی کرتا ہوں، اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے
" ایس ایم جی کے 5 اور نائن ایم ایم پسٹل کے 21 خول ملے"
ایس آئی او سچل نے بتایا کہ بس میں 60افراد سوار تھے جو کہ روزانہ صفورا چورنگی کے قریب الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل کے قریب کریم آباد جماعت خانے جاتے تھے۔
انہوں نے کہا حملہ آوروں نے بس کی ہر سیٹ پر فائرنگ کی، فائرنگ کی جگہ سے ایس ایم جی کے 5 اور نائن ایم ایم پسٹل کے 21 خول ملے۔
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ انہوں نے تصدیق کی کہ 3 حملہ آور پولیس کی وردی میں اور 3 سادہ لباس میں تھے۔
|
اقوام متحدہ کا پاکستان سے مطالبہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کیلئے تیزی سے کام کرے۔
بان نے ’دہشت گرد حملے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت‘ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
انہوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے موثر تحفظ کیلئے تیزی سے اقدامات اٹھائے۔
خیال رہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان میں اقلیتی برادری بالخصوص شیعہ کمیونٹی کے خلاف جان لیوا حملوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔اے ایف پی