برطانیہ: پاکستانی ہائی کمیشن میں سنگین مالی بےقاعدگیاں
اسلام آباد: وفاقی آڈیٹرز نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن اور برطانیہ میں دیگر شہروں میں قائم پاکستانی قونصلیٹ میں سنگین نوعیت کی مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔
اگر پاکستانی ہائی کمیشن اور برمنگھم، بریڈفورڈ اور مانچسٹر میں قونصلیٹس کی 2012-13ء کی آڈٹ اور جانچ پڑتال کی رپورٹوں کو دیکھا جائے تو کوئی بھی یہ کہہ دے گا کہ برطانیہ میں پاکستانی مشن کو قابل ہاتھوں میں نہیں دیا گیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی جانب سے لی گئی یہ رپورٹ قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے، جس کے مطابق ان بے ضابطگیوں کے تحت قیمتی زرمبادلہ سے ملکی خزانے کو محروم اور برطانیہ میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کو پریشان کیا گیا۔
وفاقی آڈیٹرز کی رپورٹ میں بیان کی گئی اہم بے ضابطگیوں میں لاکھوں برطانوی پاؤنڈز کے غیرمجاز اخراجات، ویزہ اسٹکرز اور پاسپورٹوں کی گمشدگی، اور ضرورت و لازمی اجازت کے بغیر عمارتوں کو کرائے پر حاصل کرناشامل ہیں۔
آڈیٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ ایک واقعہ میں سیریل نمبرز وی جی811680 سے وی جی811700 کے اکیس ویزہ اسٹیکرز سرکاری ریکارڈ سے گمشدہ پائے گئے۔
رپورٹ میں حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ویزہ اسٹکرز کی گمشدگی ایک سنگین غلطی ہے۔ برمنگھم کے قونصلیٹ کو اسلام آباد میں امیگریشن اور پاسپورٹس کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کو فوری طور پر مطلع کرنا چاہیے تھا۔تاکہ وہ اسےکسی ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے اس کو منسوخ کردیتے۔‘‘
اسٹیکرز کی گمشدگی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقات کی سفارش کرنے کے علاوہ وفاقی آڈیٹرز نے ڈائریکٹر جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ سے بھی کہا ہے کہ وہ ان ویزہ اسٹکرز کی منسوخی کا سرکلر جاری کریں۔
رپورٹ میں بیان کی گئی بے ضابطگیوں کے حوالے سے اپنا ردّعمل دیتے ہوئے ہائی کمیشن کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ویزہ اسٹیکرز کے معاملے کا باضابطہ طور پر جائزہ لیا گیا تھا اور اس معاملے کی ایک رپورٹ وزارتِ خارجہ کو پہلے جمع کرادی گئی تھی۔ تاہم ترجمان نے رپورٹ کے نتائج پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
مالی بے قاعدگیاں
آڈٹ رپورٹ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ویزہ کے اجراء کے لیے برمنگھم قونصلیٹ پر درج پاسپورٹ کے حوالے سے آمدنی کے اعدادوشمار میں سنگین بے قاعدگیاں پائی گئیں، جو ایک لاکھ 31 ہزار 239 برطانوی پاؤنڈز تک کی ہیں۔
ایک برطانوی پاؤنڈ کی موجودہ شرح مبادلہ 153.9 پاکستانی روپے کے تحت یہ نقصان دو کروڑ سے زیادہ کا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مشاہدہ کیا گیا کہ پاسپورٹس، ویزے اور تصدیق پر قونصلر کی رسید مشن کی جانب سے مناسب طور پر حساب نہیں کیا گیا۔
درج کیے گئے فی پاسپورٹ کی اصل رسید اور کیش بک میں ظاہر کی گئی رقم میں ایک لاکھ 31 ہزار 239 برطانوی پاؤنڈز کا فرق ہے۔
تاہم ہائی کمیشن کے ترجمان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ’’اکاؤنٹس ایک سادہ غلطی‘‘ تھی، جسے بعد میں درست کردیا گیا تھا۔
رپورٹ میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اس وقت کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کی رہائشگاہ کے حصول کے لیے بیکار، قابل اجتناب اور غیرضروری طور پر ایک لاکھ 32 ہزار 567 پاؤنڈز کی رقم خرچ کی گئی۔
اس رپورٹ کے مطابق واجد شمس الحس نے 93، وننگٹن روڈ پر ہائی کمشنر کی آٹھ کمروں پر مشتمل رہائشگاہ کی تزئین و آرائش کروائی۔
دفترِ خارجہ پر متعلقہ افسر نے تبصرے کی درخواست پر کہا کہ ’’عارضی رہائشگاہ کے حصول کے چھ مہینوں کے اندر اندر تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا عارضی رہائشگاہ کا حصول اور سفارتخانے کی رہائشگاہ کی تزئین و آرائش کے کام میں موافقت ہونی چاہیے۔‘‘
رپورٹ کاکہنا ہے کہ تاہم کمشنر تزئین و آرائش کے کام کے آغاز سے تقریباً سات مہینے پہلے کرائے کی رہائشگاہ پر منتقل ہوگئے تھے، جس کی لاگت چار ہزار ایک سو برطانوی پاؤنڈز فی ہفتے تھی۔
اس فیصلے کے مالی اثرات ایک لاکھ 14 ہزار آٹھ سو کے لگ بھگ مرتب ہوئے۔
آڈیٹرز نے لندن وزٹ کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے گاڑیوں کے حصول پر 57138.75 برطانوی پاؤنڈز کے اخراجات کو بھی بے قاعدگی قرار دیا ہے۔
مانچسٹر قونصلیٹ میں 27 ہزار چھ سو پاؤنڈز کے زیاں کی بھی رپورٹ کی گئی ہے، جس سے ایک غیرضروری عمارت حاصل کی گئی۔
وفاقی آڈیٹرز نے بریڈ فورڈ قونصلیٹ میں 4 لاکھ 60 ہزار 800 پاؤنڈز کے نقصان کی رپورٹ کی ہے، جو کمیشن کی جانب سے ایک کوریئر کمپنی کو ضابطے کے خلاف ادا کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق آڈٹ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بریڈفورڈ قونصلیٹ نے 2012-13ء کے دوران بارہ ہزار آٹھ سو ویزے جاری کیے تھے، تاہم آڈیٹرز حیرت زدہ تھے کہ قونصلیٹ نے ایک کوریئر کمپنی کو بغیر اجازت کے 36 پاؤنڈز فی ویزہ ادا کیے۔
آڈیٹرز کو اس حوالے سے کوئی جواز بھی فراہم نہیں کیا گیا۔
مانچسٹر میں تین لاکھ 34 ہزار 692 پاؤنڈز اور برمنگھم میں چار لاکھ 56 ہزار 732 پاؤنڈز کے نقصان کی بھی رپورٹ دی گئی ہے، جو اسی طرز کے معاملے میں کوریئر کمپنی کو ادا کیے گئے۔
تاہم ترجمان نے اصرار کیا کہ پاسپورٹ پہنچانے والی کوریئر کمپنی کو پی پی آر اے کے قوانین کے مطابق ادائیگی کی گئی تھی۔