خطرناک نوکری یا پرچون کی دکان؟
اسے یہاں آئے کئی گھنٹے ہوچکے تھے۔ وہ بڑی بیتابی سے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ کمرے میں لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔ کچھ لوگ نشست نہ ملنے کے باعث ٹہلنے میں مصروف تھے۔ سبھی کو اپنی باری کا انتظار تھا۔ اس نے ہاتھوں میں ایک فائل تھام رکھی تھی اور دل ہی دل میں اس بات کی دعا مانگ رہا تھا کہ کسی طرح اسے حاجی صاحب سے ملنے کا موقع میسر آسکے کیونکہ اب وہی اس کی آخری امید تھے۔
حاجی صاحب علاقے کی ایک مشہور شخصیت تھے۔ وہ بڑے دیندار اور ہر ایک کے دکھ درد میں شریک رہنے والے شخص تھے۔
ان کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کے بڑے عہدیدار بھی تھے۔ طبیعت میں چونکہ خوش اخلاقی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے سبھی ان کی عزت کرتے تھے۔ لیکن جب سے وہ انتخابات جیت کر وزیر بنے تھے تب سے ان کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ اب وہ پہلے سے زیادہ مصروف رہنے لگے تھے اور ان کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
حاجی صاحب کا دفتر شہر کے سب سے محفوظ اور پرسکون علاقے میں تھا جہاں کی سکیورٹی انتہائی سخت تھی اور عام لوگوں کو وہاں پہنچنے تک تلاشی اور پوچھ گچھ کے طویل مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اسے بھی یہاں تک پہنچنے کے لیے کافی جتن کرنے پڑے تھے۔ پڑوس میں رہنے والے ملک صاحب نہ ہوتے تو وہ شاید یہاں تک بھی نہ پہنچ پاتا۔
وہ ایک درمیانے درجے کا سرکاری ملازم تھا۔ اس کا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا۔ ابّو کچھ سال قبل وفات پاچکے تھے جبکہ امی زیادہ تر بیمار رہتی تھی۔ بیٹے کا اسکول میں پہلا سال تھا جبکہ بیٹی ابھی صرف دو سال کی تھی۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اسے بیوی بڑی سگھڑ ملی تھی جس نے آتے ہی گھر کا سارا انتظام سنبھال لیا تھا۔ یوں اس کا یہ مختصر کنبہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔
شہر کے حالات کافی عرصے سے خراب چلے آرہے تھے۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا تھا جب کہیں سے کسی بم دھماکے یا ٹارگٹ کلنک کی خبر نہ آتی ہو۔ شہر کی رونقیں عرصہ ہوئے ماند پڑچکی تھیں اور لوگ بلا ضرورت باہر رہنے سے گریز کرنے لگے تھے۔ اس کے لیے اطمینان کی بات یہ تھی کہ اس کا دفتر شہر کے نسبتاَ محفوظ علاقے میں تھا، جہاں اس طرح کے واقعات کم ہی ہوا کرتے تھے۔
اس کے باوجود اسے ہمیشہ اپنی جان کا کھٹکا لگا رہتا تھا کیونکہ اس کے کئی جاننے والے نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی وہ گھر سے دفتر کے لیے نکلتا تو اس کی ماں دعائیں پڑھ کر اس پر پھونکنے لگتی جبکہ بیوی بھی اس کے گھر واپس آنے تک پریشان رہتی۔
وہ شروع سے ہی محنتی اور ایماندار تھا۔ ہمیشہ ٹھیک وقت پر دفتر پہنچتا۔ اسے لوگوں کے مسائل حل کر کے بڑی خوشی محسوس ہوتی۔ دفتر کے باقی لوگ اسے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ رشوت نہیں لیتا تھا۔ اس لیے لوگوں کے جو کام مہینوں پھنسے رہتے تھے، وہ انہیں کچھ دنوں میں ہی نمٹا لیتا تھا۔ اس کی تنخواہ اس قابل تھی کہ وہ اپنے مختصر کنبے کو باآسانی سنبھال سکے۔ یوں تمام تر خرابی حالات کے باوجود وہ اپنی زندگی سے نہ صرف مطمئن تھا بلکہ ہر لمحے خدا کا شکر ادا کرتا رہتا تھا۔
اس کی زندگی میں بھونچال تب آیا جب اس کی ایک ایسے علاقے میں ٹرانسفر ہوگئی جہاں حالات حد سے زیادہ خراب تھے۔ وہ شہر سے دور ایک انتہائی خطرناک اور بدنام علاقہ تھا جہاں سے آئے دن نہ صرف لوگوں کے قتل کی خبریں آتی تھیں، بلکہ وہاں حکومت کی عملداری بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کسی سرکاری ملازم کے لیے تو وہ علاقہ پھانسی گھاٹ سے ہر گز کم نہیں تھا۔
ایسے میں ٹرانسفرکی خبر اس کے لیے موت کے پروانے سے ہرگز کم نہیں تھی۔ اس کی نظروں کے سامنے اپنی بیمار ماں اور بیوی بچوں کے چہرے گھومنے لگے۔ ماں کو خبر ہوئی تو تسبیح لے کے بیٹھ گئی اور مصلیٰ بچھا کر دعاؤں کا ورد کرنے لگی۔ بیوی کے بھی چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ خود بھی اگلی کئی راتوں تک ٹھیک طریقے سے نہیں سوسکا۔
ایک مرتبہ تو جی میں آیا کہ نوکری چھوڑ کر گھر کے پاس ہی کوئی پرچون کی دکان کھول لے تاکہ کسی نامعلوم گولی کا نشانہ بننے یا اغوا ہونے سے بچ سکے، لیکن دوستوں کے سمجھانے پر اس نے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب اسے بس حاجی صاحب سے ملنے کا انتظار تھا۔
وہ اپنی باری کے انتظار میں بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ ملک صاحب بھی بار بار اپنی گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سہہ پہر ہونے لگی تھی، جب کسی نے ان کا کا نام پکارا۔ دونوں ہڑبڑا گئے اور جلد ہی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ کمرے میں داخل ہوئے تو حاجی صاحب کسی سے فون پر بات کرنے میں مصروف تھے۔ دونوں خاموشی سے کمرے میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
"جی حکم کریں"، حاجی صاحب نے فون رکھتے ہوئے خوش اخلاقی سے کہا۔
ملک صاحب نے اسے کہنی ماری تو اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور مدعا بیان کرنے لگا۔
"اگر آپ کسی طرح میرا ٹرانسفر رکوا دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔" اس نے اپنی مجبوری بیان کر کے امید بھری نظروں سے حاجی صاحب کی طرف دیکھا۔
حاجی صاحب کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انہوں نے شفیق لہجے میں سوال کیا: "کیا تم مسلمان ہو؟"
"جی الحمد للہ"، اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
"پھر تو تمہیں اس بات کا بھی یقین ہونا چاہیے کہ موت برحق ہے جس کا ایک وقت مقرر ہے، اسے کوئی نہیں ٹال سکتا، اور نہ ہی اس کا وقت آگے یا پیچھے کیا جاسکتا ہے۔ تمہیں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ملک و قوم کی خاطر اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارا جانے والا شہید ہوتا ہے جو سیدھا جنت میں جاتا ہے۔
"اس لیے میری بات مانو اور موت سے ڈرنا چھوڑ دو۔ اللہ پر ایمان رکھو اور اپنے فرائض بلا خوف و خطر انجام دیتے رہو، کیونکہ اگر تمہاری موت کا وقت نہیں آیا تو کوئی مائی کا لال تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ لیکن اگر تمہاری قسمت میں مرنا لکھا ہے تو لاکھ موت سے بچنے کی کوشش کرو تم نہیں بچ پاؤ گے۔" حاجی صاحب نے تسبیح گھماتے ہوئے کہا۔
وہ تھوک نگل کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک آواز سنائی دی:
"سر چلیے، کھانے پر آپ کا انتظار ہورہا ہے۔"
حاجی صاحب معذرت کر کے اٹھنے لگے۔
ان کے پاس بھی اٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا لہٰذا باہر نکل آئے۔ نیچے سڑک پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں گاڑیوں کی قطار لگی تھی جن پر جدید اسلحے سے لیس محافظ بیٹھے ہوئے تھے۔ درجنوں پولیس والے بھی مستعد کھڑے نظر آئے۔ وہ آگے بڑھنے لگے تو کسی نے ڈانٹ کر انہیں بڑھنے سے منع کردیا۔ اسی اثناء میں حاجی صاحب بھی باہر نکلے، جنہیں ذاتی مسلح محافظوں نے گھیر رکھا تھا۔ پھر جب حاجی صاحب اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنے لگے تو سائرن کی آوازیں بھی ابھرنے لگیں۔
حاجی صاحب کا قافلہ نکل چکا تو وہ بھی گھرکی طرف لوٹنے لگے۔
وہ گھر پہنچا تو فیصلہ کرچکا تھا کہ اسے نوکری چھوڑ کر پاس ہی کوئی پرچون کی دکان کھول لینی چاہیے۔