سبین، جنہوں نے کبھی ہار نہ مانی
کی بورڈ پر انگلیاں چل رہی ہیں، لیکن مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔ کانوں میں کچھ سنسناہٹ ہو رہی ہے، لیکن کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ کوشش ہے کہ آنسو کسی طرح رک سکیں، لیکن یہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
کیا ایک دوست کی ناگہانی موت پر ردِ عمل اس سے مختلف ہو سکتا ہے؟ نہیں۔ ایک دوست کی موت انسان کے دل و دماغ کو ایسی ہی ہلا کر رکھ دیتی ہے، جیسے کسی نے آنکھوں کے درمیان گولی مار دی ہو۔
لیکن سبین ایک دوست سے کہیں زیادہ تھیں۔ وہ روشنی کا ایک مینار تھیں۔ جنون اور دکھوں کے سمندر میں پناہ فراہم کرنے والے ایک جزیرے کے جیسی۔
ان کا قائم کردہ کیفے، دی سیکنڈ فلور، بالکل ان کی شخصیت کا عکاس تھا۔ کھانوں، آرٹس، علم، نئے خیالات، اور لوگوں کو پسند کرنے والے سبین کے دی سیکنڈ فلور کے دروازے ہر خوبصورت چیز کے لیے کھلے تھے۔
پڑھیے: دنیا میں مثبت تبدیلی کی خواہشمند سبین محمود
لوگ کسی ظلم و ستم کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں، لیکن سبین دوسروں کی پریشانیوں کو محسوس کرنے میں سب سے آگے تھیں۔ وہ صرف لوگوں کی مدد نہیں کرتی تھیں، بلکہ ہمیشہ ہر عظیم مقصد کے لیے آواز اٹھاتی تھیں، اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے ہر سانس کے ساتھ منفرد کوششیں جاری رکھتی تھیں۔
وہ انسانی حقوق کی ہر مہم میں سب سے آگے تھیں۔ سڑکوں پر نکلنے والے لوگوں میں سب سے پہلے، اور گھر جانے والوں میں سب سے آخری، یہی انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی سبین تھیں۔
علمدار روڈ پر اہلِ تشیع کے قتل پر وہ نمائش چورنگی پر احتجاج کے شروع سے آخر تک موجود ہوا کرتیں۔
اور جب پشاور کی مسیحی برادری پر برا وقت آیا، تو اتوار کے روز گرجا گھروں کی حفاظت کے لیے بنائی گئی انسانی زنجیر میں وہ بھی شامل تھیں۔
روایتی طور طریقوں کو کبھی نہ ماننے والے سبین ہمیشہ دوسروں سے ہٹ کر کام کرتیں۔ سبین محمود نے کبھی بھی کسی لڑائی میں ہار نہیں مانی۔
جب "فاصلہ نہ رکھیں، پیار ہونے دیں" کہنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وہ تب بھی نہیں گھبرائیں۔
میری سبین سے آخری ملاقات اسلام آباد کی ایک سرد شام کو آبپارہ پولیس اسٹیشن کے باہر ہوئی تھی۔ وہ مجمع کو دھیما کرنے میں مصروف تھیں۔ مگر جب انہوں نے سول سوسائیٹی کے چند لوگوں کی بدتہذیبی دیکھی، تو خاموشی سے دور چلی گئیں۔
مجھے وہ ایک شفیق استاد کے طور پر یاد ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہر مشکل کے باوجود وہ خوش و خرم اور جوش سے بھرپور نظر آتی تھیں۔ جب انہوں نے اکیلے ہی سوشل میڈیا میلے کا انعقاد کیا تھا، تو انہوں نے ہی مجھے ٹوئیٹر سے روشناس کروایا تھا۔ مجھے وہ اس لیے بھی یاد ہیں، کیونکہ ہم دونوں کو ہی 80 کی دہائی کا پاپ میوزک بہت پسند تھا۔
مجھے وہ اس لیے یاد ہیں، کیونکہ میں انہیں کبھی نہیں بھول سکتا۔
آنے والے دنوں میں ان پر بہت کچھ لکھا جائے گا، بہت کچھ کہا جائے گا۔ کچھ اچھا ہو گا اور کچھ برا۔ لیکن جو کچھ بھی لکھا اور کہا جائے گا، وہ ان کی شخصیت کی مکمل عکاسی کبھی بھی نہیں کر سکے گا۔
کوئی بھی ان کی جگہ کبھی بھی نہیں لے سکتا۔ کوئی بھی ان کا خلا پر نہیں کر سکتا۔
آنسوؤں کو روکتے ہوئے میں کوشش کر رہا ہوں کہ کچھ لکھ لیا جائے۔ لیکن ان کی مسکراہٹ میری نظروں کے سامنے بار بار آ رہی ہے۔ ان کی آواز کا اعتماد، اور ان کی آنکھوں کی چمک۔ سبین آپ کہاں چلی گئیں۔
ویکس کا گانا 'رائٹ بیٹوین دی آئیز' ہم دونوں کا ہی پسندیدہ گانا تھا۔ میں وہ گانا ابھی سن رہا ہوں۔ یہ بلاگ ان کی یاد میں لکھ رہا ہوں، لیکن ایک ایک لفظ مجھے گولی کی طرح محسوس ہو رہا ہے۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ کسی نے مجھے میری آنکھوں کے درمیان گولی مار دی ہے۔
ایسا اس لیے ہے، کیونکہ ایسا ہی ہوا ہے۔
خدا حافظ سبین، آپ ہم سب سے اچھی تھیں۔
مجھے اب صرف اس بات کا خوف ہے، کہ آپ کے جانے کے بعد ہمارے لیے کون کھڑا ہوگا؟
جب میری باری آئے گی، تو میرے لیے کون کھڑا ہوگا؟
حسن بلال زیدی ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mightyobvious@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔