دنیا

اقوامِ متحدہ کی قرارداد پرعمل کیا جائے، علی عبداللہ کا مطالبہ

یمن کے سابق صدر نے لڑائی میں شامل تمام فریقین سے عوامی مفاد کے لیے جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔

صنوا: یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے سعودی عرب اور ان کی اتحادی فوجوں کے فضائی حملے رکوانے کے لیے باغیوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کرنے پر زور دیا ہے۔

خیال رہے کہ سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحاد نے گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرار داد کے بعد یمن میں فضائی حملے بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم حوثی قبائل کی جانب سے حملوں کے بعد اتحادیوں نے ایک بار پھر یمن میں فضائی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔

ادھر سعودی عرب نے خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر حوثی باغیوں کے خلاف 26 مارچ سے فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

یمن کے ایک نجی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں عبداللہ صالح نے کہا کہ 'میں انصار اللہ (حوثیوں) کو اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل کی قرار داد پر عملدرآمد کروانے پر زور دیتا ہوں تاکہ سعودی اتحادیوں کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملے بند ہو سکیں'۔

انہوں نے کہا کہ وہ یمن میں لڑنے والے ہر گروپ جن میں القاعدہ، سرکاری ملیشیا، یمن کے صدر منصور ہادی کی وفادار ملیشیا اور دیگر شامل ہیں، پر زور دیا کہ وہ تمام صوبوں سے پیچھے ہٹ جائیں اور خاص طور پر عدن میں لڑائی بند کردیں۔

گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں عرب ممالک کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرار داد کو منظور کیا گیا ہے جس میں حوثی اور سابق صدر عبداللہ صالح پر ہتھیاروں کی پابندی عائد کی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حوثیوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صنعا میں حکومتی اداروں پر موجود اپنے قبضے سے دستبردار ہو جائیں۔

حوثی قبائل کے اتحادی سابق صدر عبداللہ صالح نے اپنے بیان میں یمن میں جاری کشیدگی کو روکنے کے لیے سیکیورٹی کونسل کی حالیہ قرار داد کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔

سابق یمنی صدر جو تاحال جنرل پیپلز کونگریس پارٹی پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں، نے جنیوا میں یمن اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے مفاہمت اور اغوا کیے جانے والے افراد کی بازیابی کے لئے یمن میں اندرونی طور پر بھی مذاکرات پر زور دیا۔

سابق صدر نے وعدہ کیا کہ تمام صوبوں کی سیکیورٹی مقامی حکام کی موجودگی میں فوج کے حوالے کردی جائے گی۔

عبداللہ صالح نے کہا کہ وہ تمام سیاسی حریف، جن میں 2011 میں ان کے خلاف مظاہرے کرنے والے سیاسی حریف بھی شامل ہیں، سے بغیر کسی غرض کے مذاکرات کرنے اور معاف کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے عوامی مفاد میں سب کو معاف کردیا ہے'۔

واضح رہے کہ عبداللہ صالح نے یمن میں 33 سال تک حکومت کی ہے اور انہیں 2011 میں ایک سال طویل عرب خلفشار کے بعد زبردستی حکومت سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔

ایرانی بحری جہازوں کی واپسی

امریکی حکام کے مطابق سعودی اتحادی افواج کی جانب سے یمن کی غیر سرکاری فوجوں کے خلاف فضائی کارروائی کے دوربارہ آغاز کے بعد یمن کے حوثی قبائل کے لئے مبینہ طور پر ہتھیار لانے والے ایرانی بحری جہاز واپس لوٹ گئے ہیں۔


مزید پڑھیں: حوثیوں کو ایرانی امداد روکنے کیلئے امریکی بحری بیڑہ


امریکی حکام کا کہنا ہے کہ '9 ایرانی جہازوں کا قافلہ جو یمن کی جانب آرہا تھا اب مزید اس راستے پر پیش قدمی نہیں کررہا'۔

خیال رہے کہ یمن میں حوثیوں کو ہتھیاروں کی مبینہ فراہمی کے لئے آنے والے ایرانی بحری جہازوں کو روکنے کے لیے امریکی جنگی بحری جہازوں کی تعیناتی کی تیاریاں مکمل کرلی گئی تھی۔

امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکی جنگی بحری جہاز سعودی عرب، مصراور متحدہ عرب امارات کے بحری جہازوں کی مدد کے لئے وہاں موجود رہے گا۔

امریکی افواج سے متعلق ایک ٹیلی ویژن چینل نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ روزویلٹ ہوائی جنگی جہازوں کو لے جانے والا ایک بحری جہاز ہے اور وہ 'امریکی خارجہ پالیسی' میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق 1970ء سے یہ نحری جہاز دنیا بھر کے سمندروں میں گشت کا کام کررہا ہے جبکہ گلف اور افغانستان جنگ کا حصہ بھی رہ چکا ہے۔

ادھر امریکی نیوی کا کہنا تھا کہ انہوں ںے اہم سمندری راستے کی حفاظت کے لئے یو ایس ایس تھیوڈور روزویلٹ اور یو ایس ایس میزائل کیریئر کو بحیرہ عرب کی جانب روانہ کردیا ہے۔

امدادی طیاروں کی واپسی، ایران کی سعودی عرب پر تنقید

ایران کے خبر رساں ادارے آئی ایس این اے کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ نے سعودی عرب کے جنگی ہوائی جہازوں کی جانب سے یمن میں امداد فراہم کرنے کے لئے جانے والے دو ایرانی جہازوں کو واپس بھیجنے پر شدید احتجاج کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دو ایرانی کارگو طیارے ادویات اور دیگر ضرویات زندگی کا سامان لے کر یمن جارہے تھے کہ ان کو سعودی عرب کے جنگی طیاروں نے گھیرے میں لے کر یمن کی فضائی حدود سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یہ اقدام یمن کے اندرونی معاملات اور یمن کی فضائی حدود کی کھلی خلاف ورزی ہے۔