ہر نوکری چھوڑ دینے والے شخص کی کہانی
'تم تو لڑکیوں سے بھی زیادہ نازک ہو۔ تمہیں تو لڑکی پیدا ہونا چاہیے تھا۔'
میری روح کو زخمی کر دینے والے یہ تاثرات اور کسی کے نہیں، بلکہ ایک کزن کے تھے، جب میں نے اسے یہ بتایا کہ میں اس نوکری سے استعفیٰ دے چکا ہوں، جسے میرے خوابوں کی نوکری قرار دیا گیا تھا۔
6 ماہ کے اندر اندر دو 'اچھی نوکریوں' سے استعفیٰ دے ڈالنے کے بعد مجھے دوستوں اور گھر والوں کی جانب سے 'ہمت ہارنے والا' کہا جانے لگا۔
لیکن کیا میں انہیں الزام دے سکتا ہوں؟ شاید نہیں۔
میں ہمیشہ ذمہ داری، وعدوں، محبت، اور فیصلے لینے سے بھاگتا ہوں۔ مجھے کوئی بھی قدم اٹھانا پسند نہیں ہے۔
میں کتنی بھی کوشش کر لوں، لیکن پھر نوکری چھوڑ کر دوسری جگہ جا پہنچتا ہوں، اور کسی جگہ ٹک کر کام نہیں کر سکتا، بھلے ہی میری نیت صاف ہو۔ مجھے معلوم نہیں کیوں، لیکن یہ تمام نوکریاں جو بہت زبردست اور پرکشش لگ رہی ہوتی ہیں، کچھ ہی دن میں ایک بھیانک خواب میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
"تھوڑی بہت باتیں تو ہر جگہ سننی پڑتی ہیں۔"
کزن نے حتمی فیصلہ سنایا۔ بھلے ہی میں اپنے دوستوں اور بہن بھائیوں کی ایسی باتیں سنتا رہتا ہوں، لیکن اس بات نے مجھے بالکل مایوس کردیا۔
یہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص خود کو نااہل نہیں کہلوانا چاہتا، چاہے وہ کتنے ہی لاپرواہ کیوں نہ ہوں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مردوں کے لیے جذبات اور احساسات کا ہونا جرم سمجھا جاتا ہے۔ معاشرہ چاہتا ہے کہ مرد ہمیشہ غیر معمولی ہمت اور قوت کا مظاہرہ کریں۔
بہرحال۔ کزن کے دل توڑ دینے والے الفاظ کے بعد میں نے فیصلہ کر ہی لیا کہ میں پتہ لگاؤں گا کہ میرے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔
ایسا کیوں ہے کہ میرے اندر اپنی پسند کی چیزیں کرنے کی جو چاہت ہے، وہ ہمیشہ غائب ہوجاتی ہے۔
میں کیوں کوئی پراجیکٹ، کوئی مشغلہ، کوئی فٹنس پلان نہیں شروع کر سکتا بھلے ہی مجھے یہ کام کرنے آتے ہیں۔
میں کیوں کامیابی سے خود دور بھاگتا ہوں، اور ایک سماجی طور پر نااہل ناکام شخص بننے کو ترجیح دیتا ہوں۔
میں کیوں کچھ مشکل کام کر کے اپنے روز مرہ کے روٹین کی قید سے باہر نہیں نکل سکتا؟
جوابات کی کھوج میں میں نے یہ بات جانی کہ میں ایسا اکیلا شخص نہیں ہوں۔ پاکستان میں کریئر تلاش کرتے افراد کی ایک تہائی تعداد اس مسئلے کا شکار ہے۔
لیکن اس کی وجوہات ہر کسی کے لیے مختلف ہوتی ہیں، جن میں سستی، نوکری کا شخصیت کے مطابق نہ ہونا، طویل مدتی پلاننگ کی کمی، اور بالواسطہ جارحیت (مثلاً غصے کا اظہار خراب کام کر کے کرنا) کا ہونا ہے، جس کی وجہ سے ماہرین کا ماننا ہے کہ آپ کی عادات اور ذہن اس حد تک خراب ہو سکتا ہے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کیا بننا چاہتے تھے، یا کرنا چاہتے تھے۔
کرسی سوویک اپنے بلاگ 'کیا آپ نوکریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں؟ نوکری پر نہ ٹکنے کی تین وجوہات' میں لکھتی ہیں:
"نوجوان جو اپنے آپ کو پہچاننے کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں، بار بار نوکریاں اس لیے تبدیل کرتے ہیں، تاکہ اپنے آپشنز پر غور کر سکیں۔ جب آپ کے پاس زیادہ تجربہ نہ ہو، تو یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ آپ کس کام میں مزہ لیں گے۔ اس لیے یونیورسٹی کے فوراً بعد کئی لوگ کچھ سال ایسے ہی تبدیلیوں میں گزار دیتے ہیں۔ ان سالوں کے دوران نوکریاں تبدیل کرنا کوئی پریشانی کی بات نہیں، بلکہ نارمل ہے۔ بسا اوقات یہ جاننے کے لیے کہ آپ اپنا کریئر کیسا چاہتے ہیں، آپ کو کئی چیزیں آزمانی پڑتی ہیں۔"
وہ مزید کہتی ہیں کہ لوگ اکثر نوکری کی تلاش کرنے میں زیادہ چھان پھٹک کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اور جو نوکری ان کو اچھی تنخواہ دے، اسی کو قبول کر لیتے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ ایسا کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جن سے ان کا خرچہ تو نکل جاتا ہے، لیکن وہ کسی قسم کا اطمینان نہیں حاصل کرپاتے۔ اس لیے وہ کچھ ہی عرصے میں نوکری مارکیٹ میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔
پڑھیے: میں خود کو پاگل نہیں کہلوانا چاہتی تھی
جہاں تک سستی کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے اپنی مدد آپ کے لیے بہت کتابیں اور دیگر مواد موجود ہے، تاکہ لوگ خود میں تبدیلی لا سکیں۔ ہمت افزائی کرنے والے اسپیکرز کو آج کل کافی پذیرائی ملتی ہے، لوگ ان کے مشوروں پر عمل کر کے اپنے دیرینہ خوابوں کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
لیکن میرے جیسے اور مجھ جیسے دیگر لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمت اور جوش کی یہ چنگاری ایک دن سے زیادہ نہیں چلتی۔ خود اعتمادی اور ہمت کوئی جادو کرنے میں ناکام رہتی ہے، جبکہ نیوز فیڈز، اپ ڈیٹس، 'last seen'، بریکنگ نیوز، اور سنسنی خیز خبریں ہمیں جکڑے رکھتی ہیں۔
اس سے بھاگنا مشکل ہے، جبکہ یہ نہ ختم ہونے والی چیز ہے۔
اس کے علاوہ جہاں تک بالواسطہ جارحیت کا تعلق ہے، تو یہ خود سے اوپر کسی کے لیے غصے کا اظہار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان جان بوجھ کر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا۔
یہ سب سے زیادہ ان آفسوں میں ہوتا ہے، جہاں پر انکار و مزاحمت اس طرح کے بالواسطہ رویوں، جیسے کہ سستی، بھلکڑپن، ارادتاً نااہلی، خاص طور پر اپنے باسز کے مطالبات کے جواب میں دکھائی جاتی ہے۔ اس طرح کے لوگ سخت ناامید اور مایوس ہوتے ہیں، اور وہ ہر کام اور ذمہ داری کو بوجھ اور زبردستی تصور کرتے ہیں۔ وہ اتھارٹی (باس، ٹیچر، یا ماں باپ کی طرح حکم چلانے والے شریکِ حیات) کے لیے ناپسندیدگی رکھتے ہیں، وعدوں کو زنجیر سمجھتے ہیں، اور ہر اس رشتے سے دور بھاگتے ہیں، جو انہیں کسی بھی طرح سے پابند کرتا ہو۔
اور یہی میرے ساتھ بھی ہے۔
مجھے اپنے بچپن کے بارے میں جو بھی یاد ہے، یا جو میں نے اپنے والدین سے سنا ہے، اس کے مطابق میں بچپن سے ہی ہر اس چیز کے بارے میں منفی جذبات رکھتا ہوں، جو مجھے پسند نہیں تھیں۔ ایک طویل فہرست ان چیزوں کی ہے، جنہیں میں نے صرف اس لیے چھوڑ دیا، کیونکہ وہ مجھے اچھی نہیں لگتی تھیں، بھلے ہی اس کے لیے میرے والدین، اساتذہ، اور معاشرے نے مجھ پر کتنا ہی زور کیوں نہ ڈالا۔
اور اس کے لیے مجھے طرح طرح کے نام دیے گئے۔ روزانہ کی بنیاد پر لیکچر اور ذہنی تشدد اس کے علاوہ ہے۔ خوش قسمتی سے میں ان کا جواب دینے، اور اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے قابل ہوچکا ہوں۔
اور اب کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ میں کسی بھی نوکری پر کیوں نہیں ٹک سکتا، اس لیے میں ہر اس نوکری کو چھوڑ دوں گا، جو مجھے ذہنی سکون نہیں دیتی۔ میں ہر اس نوکری کو چھوڑ دوں گا، جس سے مجھے نفرت ہے۔ میں خوشی خوشی چھوٹی موٹی نوکریاں کروں گا، لیکن کبھی بھی اس پر معافی نہیں مانگوں گا کہ میں کیا ہوں اور کیا کرتا ہوں۔
مزید پڑھیے: ڈپریشن کی چند عام علامات
مجھے معلوم ہے کہ میرے آس پاس کے لوگ (بشمول کزن) اس بات پر برا مانیں گے، کہ میں کیوں معاشرے کے اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں جیتا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کی بھی دلی خواہش یہی ہوگی کہ وہ بھی ایسا کرنے کی ہمت رکھتے۔ آزادی کا یہ احساس بہت ہی خوشگوار ہوتا ہے۔
اپنی طرح کے تمام لوگوں کے لیے میں چیتن بھگت کے مشہور ناول Five Point Someone: What not to do at IIT سے کچھ جملے پیش کر رہا ہوں، جس پر راج کمار ہیرانی کی فلم تھری ایڈیٹس بھی بنائی گئی ہے۔
"اچھی نوکری یا شاندار کریئر کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اگر آپ کی زندگی جہنم بن جائے، ایسی گاڑی چلانے کا فائدہ نہیں جس میں آپ کی کمر دُکھتی ہو، اپنے رشتے کے اختتام کے اگلے دن پروموشن کا کوئی فائدہ نہیں، شاپنگ کا کوئی فائدہ نہیں اگر دماغ گھوم رہا ہو۔ زندگی نرسری کلاس کی اس ریس کی طرح ہے، جس میں آپ کو منہ میں چمچ اور چمچ میں گولیاں رکھ کر بھاگنا ہوتا تھا۔ اگر گولی چمچ سے نیچے گر گئی، تو پہلے ریس ختم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
"زندگی کے ساتھ بھی یہی ہے۔ اس میں آپ کی صحت، رشتے، اور ذہنی سکون گولیاں ہیں۔ آپ کی محنت صرف تب تک قابلِ ستائش ہے، جب تک آپ کی زندگی میں سکون ہے۔ ورنہ آپ کامیابی حاصل کر لیں گے، لیکن جوش اور زندگی کی یہ رمق ختم ہونے لگے گی۔ اور جوش و زندگی کی اس رمق کو باقی رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے: زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہ لیں، کیونکہ ہم اس دنیا میں وقت طور پر ہیں۔ ہم ایک محدود مدت والے پری پیڈ کارڈ کی طرح ہیں۔ اگر ہم خوش قسمت ہوئے، تو 50 سال اور چل جائیں گے، اور یہ صرف 25,000 ویک اینڈز کے برابر ہی ہیں۔ اس لیے سنجیدہ نہ ہوں، بلکہ مخلص بنیں۔"
اگر آپ اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں، تو آپ کو وہ زندگی پیچھے چھوڑنی ہوگی جو آپ نہیں جینا چاہتے۔
اور مجھ پر یقین کریں، آپ بہتر جانتے ہیں کہ آپ کو کیا چاہیے۔ کسی اور کو آپ کے لیے یہ فیصلہ نہ لینے دیں۔
عبدالرحمان نے پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری اینڈ انفارمیشن مینیجمنٹ میں ماسٹرز کیا ہے۔
وہ ہر روز معاشرے کی غلامی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں سائیکولاجی، اپنی مدد آپ کا لٹریچر، ذہنی سائنسز، اور روحانیت میں دلچسپی ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @a_rehman00
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔