رضاکارانہ خدمات: نوجوان تبدیلی لا سکتے ہیں
امریکا کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران مجھے ضرور اپنے علاقے میں رضاکارانہ خدمات انجام دینا ہوتی تھیں۔ میرے ٹیچر نے ہر سیمیسٹر میں 10 گھنٹے اس کام کے لیے شامل کیے تھے، اور میری کوشش تھی کہ کسی طرح اس کام سے بچ جاؤں۔
لیکن جب میں نے ایک بار یہ کیا، تو ہی مجھے اس کی ضرورت کا اندازہ ہوا۔
رضاکارانہ خدمات انجام دینا، جسے امریکا میں کمیونٹی سروس کہتے ہیں، امریکا اور یورپ میں کوئی نئی اور حیرت انگیز چیز نہیں ہے۔ امریکیوں کو اس بات پر یقین ہے کہ اس طرح طلباء کئی مسائل کا خود تجربہ کرتے ہیں، جس سے انہیں معاشرے کا ایک اچھا شہری بننے میں مدد ملتی ہے۔
سروس پراجیکٹ کوآرڈینیٹر ہانا فنکی نے کمیونٹی سروس پراجیکٹ کے پہلے دن تعارف کے طور پر ہمیں بتایا کہ اس طرح طلبا اپنی کمیونٹی کے بارے میں بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔
یہ 'سروس' حادثات و آفات میں ڈیوٹی سے لے کر مقامی پارک، کمیونٹی سینٹر، اسکول کے ڈائننگ ہال، مقامی چرچ، چائلڈ کیئر سینٹر، اور ٹاؤن ہال میں ڈیوٹی تک کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
جب میری باری آئی، تو میں نے پارک میں کام کیا، جہاں پر میں نے جھاڑیاں صاف کیں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنے ملک میں ایسا کچھ کروں گی۔
میں نے جنگوں میں موجود امریکی فوجیوں کے لیے خطوط بھی لکھے، لیکن یہ سب کچھ کرتے ہوئے میں اس بات پر افسردہ تھی، کہ آخر میں نے اپنے ملک کے لیے یہ سب کچھ کبھی کیوں نہیں کیا۔ میں نے کبھی اپنے ملک میں پارکوں کی صفائی میں حصہ کیوں نہیں لیا؟
امریکا میں رضاکاروں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکی وفاقی ادارہ کارپوریشن فار نیشنل اینڈ کمیونٹی سروس ہر سال 50 لاکھ امریکیوں کو کمیونٹی سروس پراجیکٹس میں شامل کرتا ہے۔
ان کا مشن ایک تربیت یافتہ اور قابل کمیونٹی کی تشکیل ہے، جو کہ حادثات کے دوران بھی مددگار ہو، اور روز مرہ کے کاموں میں بھی منظم رہے۔
رضاکار طلباء کہیں بھی کام کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ہر تعلیمی ادارہ اپنے طلباء کی اس حوالے سے مدد کرتا ہے جبکہ طلباء کو اس کام کے لیے پیسے بھی دیے جاتے ہیں۔
کمیونٹی کی مدد کے علاوہ اس کا ایک طویل المدتی مقصد یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کو نشے، تشدد، اور دیگر غلط کاموں سے دور رکھا جا سکے۔ مرکزی خیال یہ ہے کہ فرد اور معاشرے کے درمیان ایک تعلق قائم کیا جا سکے۔
پاکستان واپسی پر مجھے وطنِ عزیز میں ایسے کسی سسٹم کی غیر موجودگی زیادہ شدت سے محسوس ہوئی۔
ہمارے ملک میں پاکستان بوائے اسکاؤٹ ایسوسی ایشن اور پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن موجود ہیں، لیکن ان کے پروگرام مختصر مدت کے ہوتے ہیں، درست انداز میں چلائے نہیں جاتے، اور مضبوط حکمتِ عملی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی کمیونٹی سروس کا تصور موجود ہے، لیکن وہ صرف پروبیشن آف افینڈرز آرڈیننس 1960 کے تحت مجرموں کے لیے ہے۔
میں نے کئی پاکستانی یونیورسٹیوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تاکہ کہیں کمیونٹی سروس کا کوئی تصور مل سکے، لیکن کچھ نہیں ملا۔
ہمارے ادارے طلباء کی رہنمائی ضروری نہیں سمجھتے، جس کے نتیجے میں ہمارے طلباء اپنی شہری ذمہ داریوں کو بھی ضروری نہیں سمجھتے۔
ہمارے نوجوان بے حس ہوتے جارہے ہیں کیونکہ انہیں ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے تربیت ہی نہیں دی جاتی۔
کمیونٹی سروس میں حصہ لینے سے کمیونٹی کے مسائل کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے، ان کے حل کے لیے دستیاب وسائل کو جان سکتا ہے، نظامِ حکومت کو سمجھ سکتا ہے، اور انہی مقاصد کے لیے کام کر رہی دیگر غیر منافع بخش تنظیموں سے بھی ربط قائم کر سکتا ہے۔ اس سے پروفیشنل ٹریننگ ہوتی ہے، جبکہ ٹیم میں کام کرنے کے اپنے فوائد ہیں۔
پاکستان کے پاس دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 66 فیصد ہے۔
ہمارے نوجوان پریشان ہیں، اور حکومت سے ناامید ہیں۔ آہستہ آہستہ ہمارے کئی نوجوان ان پریشانیوں کا حل نشہ آور چیزوں اور اسلحے میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہر سال خودکشی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے، تو ہمارے نوجوان گھر میں آرام سے پڑے ہوئے سوشل میڈیا پر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ آفات کے دوران حکومت کی کارکردگی سے بیزار ہیں، لیکن خود بھی آگے نہیں بڑھتے۔
میری پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ایجنڈوں کو تبدیل کریں، اور ہر طالبِ علم کے لیے کمیونٹی سروس کو ضروری قرار دیں۔ اپنے علاقے میں ہی سہی، لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہو، تاکہ ہمارے طلباء میں بھی بہتر قائدانہ صلاحیتیں سامنے آئیں، اور مضبوط اخلاق و کردار بنا پائیں۔ وطنِ عزیز میں جہاں ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آیا ہوا ہوتا ہے، وہاں پر ایک تربیت یافتہ نوجوان قوت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
ہمارے نوجوانوں کی تربیت کے لیے ہر تعلیمی ادارے کو کام کرنا چاہیے، تاکہ ان میں سیاسی سماجی اور اقتصادی معاملات کے حوالے سے بہتر سمجھ پیدا ہو۔
ہم ہی اس ملک کا مستقبل ہیں، آئیں مل جل کر اس کی خدمت بھی کریں۔
طوبیٰ عظیم انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، اور سماجی خدمت انہیں پسند ہے۔
وہ لاء اسٹوڈنٹس کونسل پاکستان کی چیئرپرسن بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔