پاکستان

اعضاء کی پیوندکاری کی تائید سے مولانا شیرانی کا گریز

اسلامی نظریاتی کونسل کےچیئرمین کے برعکس دیگر علماء نے انسانی جان بچانے کے لیے اعضاء کی پیوندکاری کو مستحسن عمل قرار دیا۔

کراچی: بدھ کو کراچی یونیورسٹی کے شیخ زید اسلامک سینٹر پر مذہبی علماء کے ایک عظیم الشان اجتماع میں سوائے اسلامی نظریاتی کونسل کی قیادت کے ہر ایک اعضاء کی پیوندکاری کے حق میں نظر آیا۔

ان میں سے زیادہ تر نے اعضاء کے عطیہ پروگرام کے ذریعے زندگی بچانے کے ضمن میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانسپلانٹیشن کی خدمات کو سراہا۔

تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی جو ریپ کیسز میں ڈی این اے کی شہادت سے متعلق ایک تنازعے سمیت گرماگرم تنازعات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، انہوں نے ہر چیز پر تبادلۂ خیال کیا، لیکن اعضاء کی پیوندکاری پر ایک واضح موقف دینے میں ناکام رہے۔

اس کے بجائے انہوں نے اپنے ساتھی مذہبی پیشواؤں پر زور دیا کہ وہ بعض امور پر تحقیق کریں، جس میں پہلے ان کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔

مولانا شیرانی نے کہا کہ مذہبی علماء کو سب سے پہلے ایک اور مسئلے کو حل کرنا چاہیے کہ آیا ایک مسلمان کا عضو کسی غیر مسلم کو ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اور اگر ایک مسلمان کا عضو کسی غیرمسلم کو ٹرانسپلانٹ کردیا جاتا ہے تو پھر مسلمان کے اس حصے کو بھی قیامت کے دن اس غیرمسلم کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔

انہوں نے اعضاء کی پیوندکاری سے متعلق کئی دوسرے سوالات بھی کیے، اور مذہبی عالموں سے کہا کہ ان مزید مسائل کی چھان بین بھی کی جائے۔

پھر انہوں نے اپنے بنیادی سوالات کا مثالوں کے ساتھ جواب دیا۔ ان میں سے ایک سوال پر انہوں نے وضاحت کی کہ قیامت کے دن تمام مخلوقات کو اللہ کی پکار پر دوبارہ ان کے جسم کے اصل حصوں کے ساتھ زندہ کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسی بنا پر اس بات کی جانچ کی جائے کہ کیا عضو کے عطیہ کرنے کی اسلام میں اجازت ہے یا نہیں۔

مولانا شیرانی نے اپنے طویل خطاب میں بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تیار کردہ ہزاروں سفارشات پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے حکومت کو بھیجی گئی ہیں۔

وفاقی حکومت کی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان نے ایجنڈے کے اہم نکتے پر بات کی اور واضح طور پر کہا کہ غیرمسلم کا عضو مسلمان کو اور مسلمان کا عضو غیرمسلم کو ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے کہا ’’میری رائے میں ایک مسلمان کا عضو ایک غیرمسلم کو لگایا جاسکتا ہے، یا اسی طرح غیرمسلم کا عضو مسلمان کو ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ انسانی جسم اور اس کے اعضاء نجس نہیں ہیں، اور انہیں انسانی زندگی کو بچانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ انسانی جسم کے مختلف اعضاء موت کے بعد بھی ایک مخصوص وقت تک کے لیے زندہ رہتے ہیں، جنہیں استعمال کیا جاسکتا ہے اور انسانی زندگی بچانے کے لیے دوسرے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا جاسکتا ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے مزید کہا کہ ’’جیسا کہ مولانا شیرانی نے پہلے کہا کہ مسلمانوں کے جسم کے تمام حصے قیامت کے دن مسلمانوں کو دوبارہ مل جائیں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے کوئی بھی عضو ایک انسانی زندگی بچانے میں مدد کرتا ہے تو یہ اسلام کے عین مطابق ہے۔

مفتی منیب الرحمان نے کچھ عظیم علمائے کرام کا حوالہ دینے کے بعد کہا ’’بہترین انسان وہ ہے جو انسانیت کی زیادہ خدمت کرتا ہے اور ٹرانسپلانٹیشن کے ذریعے انسانی زندگی بچانا انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔‘‘

جمیعت علمائے پاکستان نورانی گروپ کے صدر ڈاکٹر خیر محمد زبیر نے کہا کہ صدقہ انبیاءعلیہم السلام کا عمل ہےاور انسانی زندگی بچانے کے لیے اعضاء کی پیوندکاری عظیم ترین صدقہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’انسانی زندگی بچانا کبھی خلافِ اسلام نہیں ہوسکتا۔‘‘

پھر انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل سے سوال کیا کہ ان کی بنیادی ذمہ داری تحقیق و سفارشات اور ان کو پارلیمنٹ سے منظور کرواکے انسانی زندگی بچانا ہے۔

منتظمین نے ایک وڈیو کانفرنس کا بھی اہتمام کیا تھا، جس میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانسپلانٹیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر ادیب الحسن رضوی نے سعودی عرب کے کڈنی کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر فیصل شاہین سے گردے کی پیوندکاری پر بات کی۔

ڈاکٹر شاہین نے کہا کہ سعودی عرب کے مذہبی علماء کی جانب سے ٹرانسپلانٹیشن کے حق میں جاری کیے گئے ایک فتوے کے مطابق پچھلے چوبیس سالوں سے سعودی عرب میں مرحومین کے اعضاء کے عطیہ کا پروگرام کامیابی کے ساتھ چلایا جارہا ہے۔

انٹرنیٹ کے لنک کے ذریعے کویت کے معروف ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر مصطفٰے الموسوی نے بھی حاضرین کو بتایا کہ بہت سے مسلمان ملکوں میں پیوندکاری میں اضافے اور انسانی زندگیوں کو بچانے میں مذہبی علماء کا کردار انتہائی مددگار ثابت ہوا ہے۔

گورمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے ڈاکٹر مفتی سلیم نے کہا کہ اگر کسی کو اعضاء کی پیوندکاری سے بچایا جاسکتا ہے تو یہ انسانیت کو بچانے سے کم نہیں ہوگا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر محسن نقوی نے کہا کہ اعضاء کی پیوندکاری کا مطلب انسانیت کی بے حرمتی ہر گز نہیں ہے، بلکہ یہ انسانیت کا احترام ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سابق رکن مفتی محمد صدیق ہزاروی نے تمام اسلامی فقہوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی علماء سے کہا کہ وہ اس مسئلے کو سب کے لیے حل کریں۔

علامہ باقر زیدی نے کہا کہ یہ معاملے زمانے کی ضرورت بن گیا ہے اور اعضاء کی پیوندکاری کو بڑے پیمانے پر انسانی زندگی بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے بھی اعضاء کی پیوندکاری کی حمایت کی۔

سکھر سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک رکن مفتی محمد ابراہیم نے کی رائے تھی کہ اسلام آسانیوں کو فروغ دیتا ہے اور جب ایک زندگی بچانےکے لیے ضرورت پڑے تو شریعت اعضاء کی پیوندکاری کی اجازت دیتی ہے۔

تاہم مفتی حماد الرحمان لدھیانوی نے کہا کہ اعضاء کی تجارت ایک شیطانی عمل ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ انسانی عظمت سب سے بالاتر ہے۔

جبکہ مولانا ثاقب الدین نے کہا کہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی و ٹرانسپلانٹیشن کا پروگرام انسانیت کی فلاح کے لیے ایک بہت بڑی کوشش ہے۔

شیخ زید اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر نور احمد شاہتاز نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اس پروگرام کی میزبانی کی۔