جوڈیشل کمیشن کتنا مددگار ہوگا؟
بالآخر دونوں فریقوں کے درمیان جوڈیشل کمیشن قائم کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ دل خوش گمان ہے کہ سیاستدانوں نے بلا کا تیر مارا ہے۔ دار الحکومت میں کئی مہینوں کے دھرنے، اور مجموعی طور پر 8 ماہ کے ہلچل بھرے شب و روز کے بعد گھی بالآخر سیدھی انگلیوں سے ہی نکلا۔
ہم بھی عجیب مزاج کے لوگ ہیں۔ میز کے گرد بیٹھ کر سیاسی پنڈت چند صفحے کالے کر دیں تو ہم پھولے نہیں سماتے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے جب میثاق جمہوریت اور نواز شریف اور آصف زرداری نے جب میثاقِ بھوربن پر دستخط کیے، تو ہم ہواؤں میں اڑنے لگے۔ اور جب زرادری صاحب نے کہا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے، تو ذرا پاؤں زمین پر لگے۔
اخباروں کی سرخیاں کہہ رہی ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کا قیام دونوں فریقوں کا تاریخی فیصلہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے کئی تاریخی فیصلے زنگ لگی الماریوں میں خاک تلے دبی فائلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
یہ تو معاملہ فقط بد نصیب ووٹر کا ہے جس کے نام پر یا تو سینکڑوں ووٹ ڈال دیے جاتے ہیں، یا پھر بیلٹ باکس ہی بدل جاتا ہے۔ ہم تو ملک کے دولخت ہونے پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ذمہ داروں کا تعین اول تو ہوتا ہی نہیں، اور ہو بھی جائے تو کسی کو سزا، یا دوسرے اقدامات شاید ہی کبھی ہوئے ہوں۔
چلیے میں دور کی کوڑی نہیں لاتی کیونکہ ماضی تو سارا داغدار ہے۔ چند عرصہ قبل ہم نے بڑی پھرتی دکھا کر سلیم شہزاد قتل کیس کی تحقیقات شروع کیں۔ بات ملک کی سرحدوں سے باہر نکلی تو ہم نے جوڈیشل کمیشن بنا دیا۔ خوش گمانی میں ہم ایک بار پھر ہواؤں میں اڑنے لگے۔ کچھ عرصہ اس کمیشن کی آنیاں جانیاں، اور گواہوں کی پھرتیاں زیرِ بحث رہیں۔ تجزیہ کاروں، صحافیوں، حتیٰ کہ ناقدوں کے قلم بھی اس کمیشن کے قصیدے لکھنے لگے۔
پھر ایک دن یوں ہوا کہ تمام امیدوں اور خوش فہمیوں کا جنازہ دھوم سے نکلا۔ فیصلہ آیا کہ تمام گواہوں اور حقائق کی روشنی میں طے یہ پایا ہے کہ حساس ادارے نہ تو شاملِ مجرم ہیں، اور نہ ہی انہیں کلی طور بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی ہم جہاں سے چلے تھے گھوم کر وہیں آ گئے۔
پچھلے چوبیس گھنٹوں سے ہمارا بھرم ہمالیہ کو چھو رہا ہے، مگر آئین یہ کہہ رہا ہے کہ 126 دن کنٹینروں، رکاوٹوں، جلسوں، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملوں، اور سیاسی جرگے کی بیٹھکوں کے بعد جو صفحات کالے ہوئے ہیں، وہ فقط ایک فریق کو ہزیمت سے، اور دوسرے کو جلسوں کے درد سر سے بچانے کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔
بنیادی طور پر معاہدے کے دو پہلو ہیں، ایک سیاسی اور دوسرا قانونی۔
قانونی اعتبار سے آرٹیکل 225 الیکشن پر سوال اٹھانے کے لیے ٹربیونلز کی راہ دکھاتا ہے، اور آئینی ترمیم کے بغیر کوئی بھی کمیشن انتخابی نتائج پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ یوں وہ کام جس کی آئین براہ راست اجازت نہیں دیتا، اس معاہدے کی رو سے اب بالواسطہ کیا جائے گا۔
سیاسی حصے کے تحت دھاندلی کی تصدیق پر وزیراعظم اسمبلی تحلیل کر دیں گے، لیکن یاد رہے کہ آئینِ پاکستان کے تحت وہ اس کے پابند نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دھاندلی ثابت ہونے پر عوامی دباؤ سر اٹھا سکتا ہے۔ وزیراعظم قومی اسمبلی، اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اپنی اپنی اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں، لیکن کیا بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ بھی اقتدار کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ کیا بلوچ سردار اور متحدہ قومی موومنٹ، جو ابھی سے جوڈیشل کمیشن کو غیر قانونی قرار دے رہی ہے، یہ سب ہونے دے گی؟ ایک ضمنی فکر یہ بھی ہے کہ ان 52 سینیٹرز کا کیا ہو گا جو تازہ تازہ منتخب ہو کر آئے ہیں؟
معاہدے کے مطابق تحقیقات کی تمام تر ذمہ داری کمیشن کے تین ججز کے کاندھوں پر ہوگی۔ تحقیقاتی دائرے کو کتنا پھیلانا ہے اور کتنا سمیٹنا، یہ ججز کے اختیار میں ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ ان تین ججز کے پاس الہٰ دین کا کون سا چراغ ہوگا کہ وہ 45 دن میں پورے الیکشن کو اسکروٹنی سے گزار سکیں جبکہ حقائق یہ ہیں کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی مدت ملازمت صرف چار ماہ بچی ہے۔ پیش رو جسٹس جواد ایس خواجہ صرف 27 دن چیف جسٹس ہوں گے اور ان کے بعد جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس بنیں گے اور آپ بھی 30 دسمبر 2016 کو رخصت ہو جائیں گے۔ آخر کون سا جج ہو گا جو اپنی آخری مدت میں خود کو متنازع بنائے گا؟
ایک ایسے ملک میں جہاں عدالتِ عظمیٰ میں 20،480 کیسز زیرِ التوا ہیں، وقت اور دباؤ کے تحت فوجی عدالتیں قیام میں ہیں، وہاں اعلیٰ عدلیہ کے سترہ ججز میں سے تین کو دو مہینے کے لیے مکمل طور پر اس انکوائری کے لیے وقف کر دینا کہ کسی گرینڈ ڈیزائن کے تحت دھاندلی ہوئی ہے کہ نہیں، کس حد تک مناسب ہے اور کس حد تک ممکن ہے؟
مان بھی لیا جائے کہ اگر جوڈیشل کمیشن دھاندلی ثابت کرنے میں کامیاب رہتا ہے، اور پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق اسمبلیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں، تب بھی اگلے انتخابات میں دھاندلی کا دروازہ کھلا رہے گا کیونکہ انتخابی اصلاحات پر کام ٹھپ پڑا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ جوڈیشل کمیشن اور دھاندلی کے اس گھن چکر میں کہیں انتخابی اصلاحاتی عمل سے روگردانی نہ ہو جائے، کیونکہ انتخابی دھاندلی کی وجوہات میں سے ایک وجہ فرسودہ انتخابی نظام بھی ہے، جسے تبدیل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنا۔
کیا اس ضروری کام کی جانب بھی کسی کی توجہ ہے؟ گذشتہ 8 ماہ کی پارلیمانی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کا جواب نفی میں ہی ہے۔
مہر بخاری عباسی ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی
کی میزبان ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: meherbokhari@ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔