نقطہ نظر

فاٹا: مسلسل جنگ سے ذہنی امراض میں خطرناک اضافہ

شدید ذہنی پریشانی کی وجہ سے یہاں کے لوگ نشہ آور ادویات کے استعمال میں ہی سکون تلاش کرتے ہیں۔

آپ اس کو بد نصیبی کا نام دیں یا عالمی کھلاڑیوں کے گریٹ گیم کا۔ جو بھی آپ کے منہ اور ذہن میں آئے نام دیں کہ پاکستان کا قبائلی علاقہ ہر لحاظ سے میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ یہ مٹی زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی۔ اور کبھی کبھار تو مردم آزاری میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہاں پر امپورٹڈ مال بکثرت پایا جاتا تھا جس میں جاندار اور بے جان دونوں شامل ہیں۔

آپ یقین کریں کہ یہاں جو کچھ ہوا، ان سب میں سو 100 فیصد ہاتھ ان بیچارے قبائلیوں کا نہیں تھا، بلکہ شرق و غرب سے تو مان نہ مان میں تیرا مہمان والی بات تھی۔ ان لوگوں کی کشمیر کے لیے ضرورت پڑی تو لشکر اور دستے روانہ کیے۔ مفت میں سر کٹوانے پر راضی، منشاء و مقصود صرف وطن عزیز سے وفاداری تھی۔ سرخ انقلاب کے وقت جب انہیں بتایا گیا کہ سویت یونین نے گرم پانیوں تک پہنچنا ہے تو ملک و ملت کے یہ بے تیغ و تفنگ سپاہی اس کو روکنے کے لیے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔

لیکن 11 ستمبر کے بعد یہاں کے حالات مکمل طور پر تبدیل ہوگئے۔ جنگ کا رخ افغانستان کے بجائے جب یہاں مڑا، تو وہ اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لے کر آیا۔ یہاں سے قبائلی جرگے اور مقامی انتظامیہ کی اصل قوت دو اطراف سے بیک وقت براہ راست چلینج ہو گئی۔ ایک طرف عسکریت پسند قوتیں اور دوسری طرف ریاستی قوت۔ درمیان میں عام آدمی کا جو حال ہوا، وہ بیان سے باہر ہے۔

بطور مثال جنوبی وزیرستان کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ان حالات و واقعات کا بقلم خود چشم دید گواہ ہوں۔ اچھی طرح یاد ہے کہ حکومتی حمایت یافتہ 36 رکنی کمیٹی ہوا کرتی تھی جس کے اکثر فیصلے انتہائی غیر دانشمندانہ ہوا کرتے تھے اور حالات کی گتھی کو مزید الجھانے میں معاون ثابت ہوئے، حالانکہ یہ بہت نازک حالات تھے۔ کسی نے 36 رکنی کمیٹی کے احکامات کی کماحقہ بجاآوری نہ کی تو بسا اوقات علاقہ بدری اور مکانات کی مسماری تک بات پہنچ جاتی، کیونکہ سادہ سا فارمولا تھا کہ فلاں شخص طالبان یا غیر ملکیوں کا حامی ہے، اس لیے اس کو ہر طرح کی سزا دی جا سکتی تھی۔

اسی 36 رکنی کمیٹی کے ایک اشارے پر طالبان کے حامیوں کے خلاف مسلح لشکر تشکیل دیے جاتے تھے اور ہاں یادش بخیر جانب مخالف کے عناصر بھی معاشرے میں ودیعت کر چکے تھے۔ ایک ٹیلی فون کال کی دیر ہوتی کہ بات بمعہ جملہ تفصیل طالبان تک پہنچ جاتی اور اس بات کے چرچے ہوتے کہ آج کس نے کیا کہا۔ اس کے بعد نامعلوم سمت سے موت آتی اور اس شخص کو اپنے ساتھ لے جاتی۔ یہ قبائل کے لیے ایک انتہائی مشکل دور تھا کہ ایک طاقت وہاں سے اور دوسری طاقت یہاں سے، درمیان میں بیچارے حیران و پریشان ہوتے اور اسی کشمکش میں کئی سرکردہ لوگ نامعلوم افراد کے ہاتھوں نامعلوم وجوہات کی بنا پر قتل ہو گئے۔

ٹارگٹ کلنگ، آپریشنز، بمباری، سرکاری تنصیبات پر راکٹ حملے اور جوابی کارروائی، فضا میں گن شپ ہیلی کاپٹر، پے درپے ڈرون حملے اور فضا میں ان کی انتہائی نچلی پروازیں، اور ہر طرف بارود کی بو نے وزیرستان کی خوشگوار فضا کو مکدر کر دیا تھا۔ ڈرون کے شتر بے مہار اور زمین پر راکٹوں نے ہر طرف خوف و ہراس کے سائے پھیلا دیے تھے۔ روزگار ختم ہوا، بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوا، پریشانیاں بڑھتی گئیں۔

ایسے حالات میں جب وانا کی فضاؤں میں بیک وقت 3 اور 4 امریکی جاسوس طیارے انتہائی نچلی پروازیں کرتے، ایک دن نہیں، ہفتہ نہیں، 24 گھنٹے ساتوں دن کی بات ہوتی، تو یہاں کے اکثر لوگ ذہنی بیماریوں اور اسٹریس میں مبتلا ہوگئے۔ تعلیم اور وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ مکمل اور بروقت علاج نہیں کر پاتے اور آج تک ان کا یہی حال ہے۔

حالات کے مسلسل بگاڑ کی وجہ سے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (شدید صدمے کے بعد پیدا ہونے والی نفسیاتی بیماری) اور شدید گھبراہٹ اور گھبراہٹ کے دورے، اینگزائٹی اور پینک اٹیک وہم کی بیماری (آبسیسو کمپلسو ڈس آرڈ) جیسے مسائل اور بیماریوں کی وجہ سے یہاں کے لوگوں میں ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اب حالت یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جب بازار آتی ہے، تو دیگر اشیائے ضروریہ کی ساتھ ساتھ ان کی ایک ترجیح سکون آور ادویات ہوتی ہیں۔ بندہ نے خود ایسے قبائلی لوگ دیکھے ہیں جن کی جیب میں نیند کی گولیاں بھری پڑی ہوتی ہیں۔

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان افنان، جس کی عمر ابھی تقریباً 22 سال ہے، نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے مختلف وسوسوں اور ماحول کے بیجا خوف میں مبتلا ہے۔ ایک بار پشاور گیا، تو ڈاکٹر نے دوائی دی۔ اس کے بعد وہ چھوٹے پیک والی 7 روپے کی جو 10 گولیاں ملتی ہیں، بازار سے لیتا ہے، اور لال رنگ والی بھی جیب میں الگ سے اور گھر میں الگ سے رکھتا ہے اور دن میں 4 گولیاں لیتا ہے۔ چھوٹی اور لال رنگ کی جب مزید تفصیل جاننی چاہی تو بیچارے کو الپرازولم اور برومازیپام کے نام تک نہیں آتے تھے۔ اس نے کہا کہ ہر وقت پریشانی ہوتی ہے، نیند بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتی۔ بس ان گولیوں پر وقت گزار رہا ہوں کیونکہ یہ کافی سستی ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں۔

ایک دوسرے قبائلی فاروق خان (28 سال) نے علاج معالجے کے سلسلے میں بتایا کہ ہم مہنگے علاج نہیں کرتے۔ معدے کے لیے میں یہ گولیاں استعمال کرتا ہوں بہت اچھی دوائی ہے (ہندوستانی ساختہ اومیپرازول 40 ملی گرام کا استعمال شدہ پتا جیب سے نکالا، ساتھ الپرازولیم کی 7 گولیاں تھیں۔ کہنے لگے کہ یہ طبیعت کی خرابی کی صورت میں استعمال کرتا ہوں، رات آرام سے گزر جاتی ہے۔

فاروق نے نام کے بغیر رنگ و نشانیوں سے مختلف امراض کی کئی ہندوستانی کمپنیوں کی اسمگل شدہ ادویات سے متعلق مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ میڈیکل اسٹور جا کر رنگ اور ڈبہ دیکھ کر دُکاندار سے مختلف ادویات لیتا ہے جسے گھر کے دوسرے افراد بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں درجن سے زائد دکانیں صرف وانا کی مارکیٹ میں موجود ہیں جبکہ گودام ان کے علاوہ ہیں۔

جو خوشحال لوگ ہیں، وہ پاکستانی کمپنیوں کی معیاری ادویات لیتے ہیں جو تھوڑی مہنگی ہوتی ہیں۔ لیکن حکومتی مہربانیوں سے یہاں بھارتی ادویات کی بھر مار ہے جو پاکستانی ساختہ دوائیوں سے کئی گنا کم قیمت ہوتی ہیں۔ الپرازولیم (نیند کی دوائی) کی ہندوستانی ساختہ 10 گولیاں 5 سے 7 روپے میں آج بھی دستیاب ہیں۔ اگر کوئی پورا ڈبہ لیتا ہے تو انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ راقم نے ان ادویات کے ڈبے کے اندر اور باہر چھپی ہوئی تاریخِ میعاد کا موازنہ کیا تو زمین و آسمان کا فرق نکلا۔

ان نشہ آور ادویات کا استعمال پچھلے چند سالوں سے انتہائی بڑھ چکا ہے اور کئی لوگ ان کے عادی ہو چکے ہیں۔ وانا کے مرکزی مارکیٹ میں ایک میڈیکل اسٹور کے مالک سے بات کی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُنہوں نے بتایا کہ ہندوستانی ادویات افغانستان کے راستے آتی ہیں اور اس کی تعداد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ غیر ملکی ادویات کے کاروبار سے وابستہ ایک دوسرے شخص سے قیمتیں پوچھیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک دو روز میں نیا اسٹاک آرہا ہے جس میں ہر آئٹم اور بھر پور مقدار ہوگی۔ ہم ان ادویات کو ایجنسی کے دوسرے دیہی علاقوں میں کام کرنے والے شعبہ طب سے وابستہ افراد کو سپلائی کرتے ہیں۔

الپرازولیم گولی کا ایک ڈبہ جو پاکستان کی دوسرے دواساز کمپنیاں تیار کرتی ہیں، 30 گولیاں 150 سے 200 روپے تک مل سکتے ہیں جبکہ یہی الپرازولیم وزیرستان میں دوسرے ناموں سے دستیاب ہے۔ 100 گولیوں پر مشتمل ڈبہ 30 سے 35 روپے میں باآسانی مل جاتا ہے۔

بھارتی کمپنیز کی مہربانی اور حکومت کی شدید غفلت کی وجہ سے، اسٹریس، بلڈ پریشر، اور دیگر بیماریوں کی دوائیاں عام طور پر دستیاب ہیں جن پر ہندوستانی علاقہ ہریانہ لکھا ہوتا ہے۔ غریب لوگ سکون آور ادویات سے عارضی سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے اور اس کا حل کیا ہے، آئیں ماہرین سے جانتے ہیں۔

نامور ماہر نفسیات، ڈائریکٹر ریسرچ راولپنڈی میڈیکل کالج، اور سربراہ انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری بینظیر بھٹو ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر فرید اسلم منہاس صاحب سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے فاٹا اور وزیرستان کے عوام میں پائی جانے والی نفسیاتی و ذہنی بیماریوں، نامکمل علاج اور غیر معیاری ادویات کی صورت حال کی تصدیق کی۔ انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ وہاں کے ڈاکٹروں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر نفسیاتی اور ذہنی امراض کے حوالے سے تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ مقامی سطح پر اس سنگین مسئلے پر قابو پانے میں کردار ادا کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ نشہ آور ادویات کا استعمال ان علاقوں میں لازمی بات ہے کیونکہ کئی دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں، اور اسٹریس لیول کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر اور ناقص ادویات نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی لحاظ سے انتہائی برے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اگر سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں وہاں کے ڈاکٹروں کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں تربیتی پروگرام کا انتظام کریں تو مقامی ڈاکٹرز قبائل کے لیے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس ناگفتہ بہ اور پریشان کن صورت حال پر کہ فضاؤں میں ڈرون، اور نیچے زمین پر گولی و بارود اور ناقص نشہ آور ادویات کی بہتات پر ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود مشہور ماہر نفسیات و دماغی امراض ڈاکٹر خورشید صاحب سے رابطہ کیا تو موصوف نے انکشاف کیا کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 2003 کے بعد نفسیاتی و دماغی امراض میں خاصہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اوسطاً 20 نفسیاتی مریض روزانہ (ماہانہ 600 افراد) میرے پاس آتے ہیں جو کہ حالات کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکے ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر خورشید کا کہنا ہے کہ ان میں اکثر ایسے مریض ہوتے ہیں جن کی فرسٹریشن لیول بہت ہائی ہوتی ہے اور ان لوگوں کو باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں غیر ملکی اور آسان قیمت میں دستیاب غیر معیاری ادویات کے عام استعمال کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ بہت تشویش ناک صورت حال ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈیرہ ٹیچنگ ہسپتال کے ماہر نفسیات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر منیر داوڑ نے کہا کہ وہ ماہانہ کم از کم 100 سے زائد مریضوں کو ڈیل کرتا ہے جو خالص نفیساتی مریض ہوتے ہیں اور جن کا تعلق شمالی و جنوبی وزیرستان سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر منیر داوڑ نے کہا کہ ڈپریشن، سوشل فوبیا کے شکار، اور نشہ آور ادویات پر انحصار کرنے والے مریضوں میں اب کم عمر اور اسٹوڈنٹ بھی کافی تعداد میں ہمارے پاس آتے ہیں۔ جو لوگ پشاور اور دوسرے شہروں میں جاتے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔

'وزیرستان میں سستے داموں دستیاب غیر ملکی (بھارتی) ادویات جو کلو گرام کے حساب سے بھی دستیاب ہیں، نے ہماری نسل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کئی ایسے مریض میرے پاس آتے ہیں جن کی جیبوں میں یہی ادویات ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہانہ 100 نفسیاتی مریضوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو یا تو علاج معالجے کے اخراجات کو برداشت کر سکتے ہیں، یا دوسرے ڈاکٹرز ہمیں بھیج دیتے ہیں کیونکہ اکثر وہ ہائی بلڈ پریشر، دل کی تیز دھڑکن، معدے کی خرابی، تھکاوٹ وغیرہ کی وجہ سے عام فزیشنز کا رخ کرتے ہیں جبکہ دراصل وہ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں۔

'جب ہم ان قبائلی لوگوں کو کوئی دوائی لکھ دیتے ہیں تو یہ لوگ اکثر متبادل کے طور پر غیر معیاری ادویات مقامی مارکیٹ سے باآسانی سستے داموں لیتے ہیں اور یقیناً ایسی ادویات کے برے اثرات بہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔ اور ہاں سارے لوگ ایسے بھی نہیں، نڈر اور بہادر لوگ جو حالات کا مقابلہ کرتے ہیں وہ نارمل زندگی گزارتے ہیں لیکن بغیر ادویات کے یہ بھی مشکل ہے۔' ڈاکٹر صاحب کی اس بات میں سچائی ہے کہ قبائلی لوگوں میں اکثریت حالات کا مقابلہ کرنے والے ہیں اور سب ہی نشہ آور ادویات کے چنگل میں نہیں۔

کیا گورنر خیبر پختونخواہ ڈائریکٹر ہیلتھ فاٹا سے اس بارے میں نہیں پوچھ سکتے؟ مثلاً جنوبی وزیرستان ایجنسی کا مین بازار اور تجارتی مرکز وانا سرکاری اسکاؤٹس قلعہ سے غالباً 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کیا وہاں مقامی انتظامیہ کو اتنی ہمت نہیں ہو سکتی کہ ایک پروانہ ان ڈرگ مافیا کے نام جاری فرمائیں؟ سرحدی چیک پوسٹس پر تعینات خاصہ دار فورس اس کی روک تھام باآسانی کر سکتے ہیں لیکن تاحال ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ پولیٹیکل انتظامیہ صرف اس لیے ہے کہ وہ مختلف چیک پوسٹوں پر ٹرک ڈرائیوروں سے وصولی کریں۔ وزیرستان لے جانے والی تقریباً تمام اشیا پر ٹیکس نما بھتہ وصول کرنے میں مقامی انتظامیہ کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی۔

10 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا لیکن یہاں بھارتی ساختہ نشہ اور غیر معیاری ادویات کا دھندہ عروج پر ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم نے نوجوان نسل کی ذہنی بربادی کا کتنا سستا سامان کیا ہے؟ کیا ہندوستانی کمپینوں کو نہیں علم کہ ان کی مصنوعات کہاں جاتی ہیں؟ صرف نشہ آور نہیں، بلکہ اینٹی بائیوٹکس اور عجیب عجیب قسم کے اجزاء پر مشتمل دوسری ادویات اور کھانسی کے شربت وافر مقدار میں انتہائی سستے داموں دستیاب ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں کی ادویات خاص کر ان کی بہتر نشونما کے نام پر پاؤڈر نما دودھ جن پر جلی حروف میں 'ماں کا دودھ' لکھا ہوتا ہے، 150 روپے میں دستیاب ہے لیکن اس پاؤڈر کی اصلیت سے کوئی بھی واقف نہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ کئی دوسری مختلف قسم کی مصنوعات ملتی ہیں جو کہ طوالت تحریر کی بنا پر ضبطِ تحریر میں نہیں لائی جا سکتیں۔

سمجھ سے بالاتر بات ہے کہ جنوبی وزیرستان کے اکثر علاقے، جن میں وانا سب ڈویژن بھی شامل ہیں، پر حکومتی رٹ بھی قائم ہے، باقاعدہ امن کمیٹیاں بھی ہیں، سرکاری اہلکار بازار میں آزادانہ گھوم پھر بھی سکتے ہیں، لیکن پھر بھی پاکستانیوں کے ذہن و دماغ سے کھیلنے والی انڈین مصنوعات، جن کے معیاری ہونے کا کوئی پیمانہ نہیں، بھی سر بازار ملتی ہیں۔

ہماری گورنر خیبر پختونخواہ، میڈیا، اور صحت سے وابستہ تمام سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں سے اپیل ہے کہ ان لوگوں کو اس بڑے پیمانے پر تباہی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ پشاور یا اسلام آباد میں ان متاثرہ لوگوں کی ذہنی صحت کی بحالی اور نشہ آور ادویات کی حوصلہ شکنی کے لیے کوئی سینٹر قائم کریں۔ چند ماہرین کی خدمات لیں تاکہ ہمارے یہ پاکستانی بھائی اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کریں۔

اگر امریکی ڈرون نہیں بند کر سکتے تو کم از کم ہندوستانی غیر معیاری ادویات کی بندش تو کی جا سکتی ہے۔ اس میں کیا چیز روک رہی ہے؟ اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن کی عوامی حکومت ہے اور حکومت کا یہ ایک بڑا امتحان ہوگا۔ ماہرین کے مطابق چند سال بعد اس علاقے میں منشیات (نشہ آور ادویات) کے عادی افراد اور ذہنی امراض میں اضافہ ہونے والا ہے۔ تب ہم میٹنگز بلائیں گے، انسپیکشن ٹیمیں بھیجی جائیں گی، لیکن دہشتگردی کے خلاف جنگ کے آفٹر شاکس آنے والی نسلیں محسوس کریں گی۔

یاد رہے کہ ایک کروڑ آبادی کے اس علاقے میں ایک بھی ماہر نفسیات یا کوئی بھی اسپیشلسٹ ڈاکٹر موجود نہیں، جبکہ یہ مسئلہ پورے فاٹا کا ہے۔ ہم نے صرف بطور مثال وزیرستان کا ذکر کیا وگرنہ خیبر، مہمند، باجوڑ، اورکزئی، کرم، اور بعض ایف آرز کا بھی یہی حال ہے۔ حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ پیارے ملک کی ایک پوری نسل معاشرے پر بوجھ بنے گی۔

اگر فاٹا کے لوگ ذہنی طور پر صحتمند نہیں ہوں گے، تو وہ کبھی بھی دہشتگردوں کی مخالفت اور ان کے پروپیگنڈے کا توڑ نہیں کر سکیں گے۔

کیا کسی کو اس بات کی فکر ہے؟

انور شاکر وزیر

لکھاری فاٹا سے تعلق رکھنے والے فری لانس جرنلسٹ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔