پاکستان

اضافی مراعات: سینیٹرز سابق چیف جسٹس کی طلبی کے خواہشمند

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے چیئرمین سے ایک قرارداد پیش کرنے کی منظوری طلب کی مگر انہیں اس سے روک دیا گیا۔

اسلام آباد : سینیٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو حاصل " اضافی مراعات" پر بحث کا آغاز ہوگیا جس پر بدھ کو چیئرمین سینیٹ سید نیئر حسین بخاری نے رولنگ دی تھی کہ یہ متنازع موضوع " رول 60 کے تحت عوامی اہمیت کا ہے"۔

سینینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے اس بحث کا آغاز سابق چیف جسٹس کو سینیٹ کمیٹی میں طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کیا تاکہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی بلٹ پروف مرسڈیز کی مراعات پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کرسکیں جسے وہ حکومتی خرچے پر استعمال کررہے ہیں جو کہ مبینہ طور پر قوانین کے خلاف ہے۔

کارروائی کے آغاز میں چیئرمین نے اٹارنی جنرل کی عدم حاضری پر ناخوشی کا اظہار کیا جنھیں ایوان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر سپریم کورٹ رجسٹرار کی خاموشی اور جسٹس ریٹائرڈ افتخار چوہدری کی مراعات کی وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

اعتزاز احسن نے جو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی جانب سے اس دور کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی پر چلنے والی مہم کے قائد تھے، نے تجویز دی کہ اس معاملے کو سینیٹ کی مراعات کمیٹی کو بھجوایا جائے۔

انہوں نے سابق چیف جسٹس کے اس عوامی اعتراف کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے ہاﺅس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے قرضہ لینے کا اعتراف کیا تھا جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے جبکہ اعتراف احسن نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس کا لاہور میں زیرتعمیر گھر " دیکھنے کے لائق عمارت" ہے۔

اپنے شعلہ فشاں خطاب میں اعتزاز احسن نے ان دنوں کو یاد کیا جب سابق چیف جسٹس کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار منظرعام پر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ کچھ دستاویزات کے ساتھ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے پاس گئے تھے جو ان کے بقول ارسلان کے ' بارے' میں تھے مگر چیف اپنے بیٹے کا تحفظ کرتے رہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے چیئرمین سے ایک قرارداد پیش کرنے کی منظوری طلب کی مگر انہیں اس سے روک دیا گیا۔

چیئرمین نیئر حسین بخاری نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ضوابطہ پر عمل کریں اور قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرائیں۔

فرحت اللہ بابر نے انہیں بتایا کہ سپریم کورٹ رجسٹرار کبھی بھی سینیٹ کی جانب سے بھجوائے جانے والے سوالات کا جواب نہیں دیتے اور دوہری شہریت رکھنے والے ججز کے بارے میں معلومات کے لیے لکھے گئے خطوط کا بھی جواب نہیں ملا تھا۔

پی پی پی سینیٹر نے کہا کہ یہاں تک کہ اعلیٰ عدالتوں میں زیرالتواءمقدمات کے بارے میں معلومات کی درخواست بھی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دی گئی۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اسی اثناءمیں ایوان میں پہنچ گئے اور انہوں نے یہ بتاکر متعدد سینیٹرز کو حیران کردیا کہ آئین کا آرٹیکل 19A جو اطلاعات کے حصول کے حق کو یقینی بناتا ہے، کا اطلاق سپریم کورٹ کے مقدمات پر نہیں ہوتا، مگر وہ اس بات کی وضاحت نہیں کرسکے کہ کیسے اور کس قانون کے تحت۔

انہوں نے کہا کہ ایوان کو مطلوب تمام اطلاعات وزارت قانون کے پاس دستیاب ہیں اور حکومت سپریم کورٹ کو احکامات نہیں دے سکتی جبکہ عدالتی فنکشنز پر سوالات نہیں اٹھائے جاسکے۔

ان کے مطابق سابق چیف جسٹس کو بلٹ پروف گاڑی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے تحت فراہم کی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 189 اور 201 کے تحت ریاست عدالتوں کے احکامات پر عملدرآمد کی پابندی ہوتی ہے، تاہم اس فیصلے انٹراکورٹ اپیل جلد سماعت کی ایک درخواست کے ساتھ دائر کی جاچکی ہے مگر وہ نومبر 2014 سے زیرالتواءہے۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ دیگر ریٹائر چیف جسٹسز بھی تو موجود ہیں " کیا انہین بھی بلٹ پروف گاڑیوں کے حصول کے لیے عدالتوں کا رخ کرنا چاہئے؟ کیا یہ ناانصافی نہیں کہ ایک کو ایسی گاڑی دی جائے اور دیگر کو انکار کردیا جائے؟"

سینیٹرز کو اٹارنی جنرل کے خیالات پر سوالات کا وقت نہیں مل سکا مگر پی پی پی کے رکن سعید غنی نے جن کے مرسڈیز سے متعلق سوال نے اس تنازع کو جنم دیا، نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل اطلاعات کی فراہمی کے حوالے سے استثنیٰ حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک عام شہری کی حیثیت سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھ کچھ اہم معلومات سے حصول کی کوشش کریں گے جو وزارت قانون کے جواب میں موجود نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ سابق چیف جسٹس صاحبان کو الاٹ کیے جانے والے پلاٹوں کی تفصیلات حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کے پاس ان چیف جسٹسز کی فہرست موجود ہے جو 1985 سے اب تک ریتائر ہوئے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بس ان کی تصدیق کرنا ہے۔

سینیٹ کا اجلاس اب پیر کی سہ پہر چار بجے دوبارہ ہوگا۔