پاکستان

کوئٹہ دھماکے اور فائرنگ: ڈپٹی کمشنر اور طالبات سمیت 23 افراد ہلاک

کوئٹہ میں ویمن(خواتین) یونیورسٹی کے قریب بس میں دھماکے سے کم از کم 11 خواتین ہلاک، بولان میڈیکل کمپلیکس پر شدت پسندوں کا قبضہ، چار حملہ آور بھی مارے گئے، متعدد عمارت میں موجود۔

کوئٹہ/ اسلام آباد: صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں متعدد بم دھماکوں اور اور فائرنگ کے باعث 14 طالبات سمیت 22 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سمیت متعدد سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے کوئٹہ کے واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔

بلوچستان حکومت نے مذکورہ حملوں پر کل صوبے بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے بولان میڈیکل کمپلیکس کے متعد حصوں پر قبضہ کر لیا تھا جنہیں سیکیورٹی فورسز نے کلیئر کرا لیا ہے۔

بولان میڈیکل اسپتال پر بھاری ہتھیاروں سے مسلح افراد نے قبضہ کر کے اسپتال کے عملے اور صحافیوں سمیت متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جبکہ اسپتال میں ڈاکٹر اور مریض محصور ہو گئے تھے۔

سیکیورٹی فورسز کے مطابق اسپتال کے بیشتر حصوں کو شدت پسندوں کے قبضے سے چھڑا لیا گیا ہے جبکہ ابھی بھی چار افراد عمارت میں موجود ہیں۔

وزیر داخلہ نے تصدیق کی کہ 35 یرغمالیوں کو چھڑا لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں موصول شدہ آفیشل رپورٹس کے مطابق آپریشن میں چار دہشت گرد مارے گئے جبکہ ایک مشتبہ شخص کو اسپتال کے باہر سے حراست میں لیا گیا ہے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ آپریشن کے حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دیر بعد صورتحال واضح ہونے پر بتائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی کل تعداد 23 ہو گئی ہے جس میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ عبدالمنصور خان، چار فرنٹیئر کورپس کے اہلکار، چار دہشت گرد اور سردار بہادر خان یونیورسٹی کی 14 طالبات شامل ہیں۔

اس سے قبل سردار بہادر خان یونیورسٹی میں بس کے اندر نصب دھماکے سے خواتین طالبعلم ہلاک ہو گئی تھیں۔

سی سی پی او کوئٹہ میر زبیر خان نے کہا کہ دھماکہ تین بجے کے وقت ہوا جب یونیورسٹی کی طالبات بس میں سوار ہو رہی تھیں۔

سی سی پی او کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد بس میں آگ لگ گئی تھی جس کے باعث متعدد طالبات جھلس گئیں، ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد طالبات اور خواتین اساتذہ کی ہے۔

میر زبیر خان نے کہا کہ دھماکے میں بے گناہ اور معصوم طالب علموں کو نشانہ بنایا گیا اور اس اندوہناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور ہم ان کے خلاف جنگ کریں گے۔

بعد ازاں زخمیوں کو کوئٹہ کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کیا گیا جہاں آدھے گھنٹے بعد دھماکے کے ساتھ ساتھ فائرنگ بھی کی گئی جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں اسپتال میں متعدد افراد محصور ہو گئے تھے جہاں سیکیورٹی فورسز حملہ آوروں کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے عمارت کے بیشتر حصے کو دہشت گردوں سے خالی کرانے کے بعد شہریوں کو رہا کرا لیا ہے تاہم سی سی پی او میر زبیر کا کہنا ہے کہ ابھی اس بات کی تصدیق میں دو سے تین گھنٹے لگیں گے کہ اسپتال کو دہشت گردوں سے پاک کرا لیا گیا ہے۔

اس سے قبل جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب دہشت گردوں نے بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک اور کارروائی کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ "زیارت ریزیڈنسی" پر دستی بم حملے کر کے اسے تباہ کر دیا تھا۔

مذکورہ رہائش گاہ میں قائد اعظم اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے جبکہ اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا تھا۔

آفیشلز نے تصدیق کی ہے کہ تاریخی عمارت میں موجود زیادہ تر یادگاریں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ آگ لگنے کے نتیجے میں بانی پاکستان کی تصویریں بھی جل گئی ہیں۔

ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ آیا قائد اعظم کی رہائش گاہ اور کوئٹہ حملے ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں یا پھر یہ دو الگ گروہوں کی کارروائی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے بلوچستان حملوں کے بعد صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہیں حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ان حملوں میں ملوث عناصر پاکستان اور بلوچستان کے دشمن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس نازک موقع پر پوری بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہے۔

ابھی تک کسی بھی دہشت گروپ نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی۔