فوجی عدالتیں: ایک غلط فیصلہ
پاکستان میں فوجی عدالتیں نہیں ہونی چاہیئں۔ اس وسیع تر شکل و صورت میں نہیں جس کا تصور عسکری اور سیاسی قیادت نے پیش کیا ہے، شہریوں پر دہشتگردی کے مقدمات چلانے کے لیے نہیں، یہاں تک کہ تھوڑے سے وقت کے لیے بھی نہیں۔
سادہ سی بات یہ ہے کہ فوجی عدالتیں آئینی جمہوریت کے ساتھ نہیں چل سکتیں۔
پشاور میں اسکول پر حملے کے فوری بعد سیاسی اور عسکری قیادت کا ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتے دہشتگردی کے اندھیرے کو ختم کرنے کے لیے سر جوڑنا بلاشبہ ایک درست قدم تھا۔
لیکن جہاں وہ غلطی کر گئے، وہ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ تھا۔
فوجی عدالتیں قائم کرنے کے فوج کے مطالبے پر زیادہ مخالفت شاید اس لیے بھی نہیں ہوئی کیونکہ ملک افسوس میں ڈوبا ہوا تھا، اور مسلم لیگ ن کمزور پوزیشن میں تھی، کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک بھی پشاور حملے کے پیچھے موجود لوگوں سے مذاکرات کرنے پر زور دے رہی تھی۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پشاور میں موجودگی کی وجہ سے مرعوب ہوگئی ہوں، اور فوجی عدالتوں کے مخالفین نے سوچا ہو کہ موجودہ حالات میں ان کی مخالفت کرنا بے کار ہے۔
بہرحال، سیاسی جماعتیں جس بھی وجہ سے اس نہج تک پہنچیں کہ آئین اور دیگر قوانین میں ترمیم کر کے دہشتگردی کے ملزمان پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کی گنجائش پیدا کی جائے، یہ انتہائی غلط فیصلہ تھا۔
لیکن دیر سے ہی سہی پر کچھ سیاسی قائدین نے اس پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں زیادہ تر سینیٹرز شامل ہیں، جو دیگر ایوانوں کے ممبران کے مقابلے میں پارٹی ڈسپلن سے نسبتاً آزاد ہوتے ہیں۔
جب ایک 'انصاف' کے نظام کو قائم کرنے کے لیے شہریوں کے آئینی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کو ایک طرف رکھنا پڑے، تو یہ حل نہیں ہے، نہ ہی دہشتگردی کا اور نہ ہی عسکریت پسندی کا۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فوجی عدالتیں عوام کو خوش کرنے کے لیے قائم کی جارہی ہیں، جس سے ریاست یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اب بھی اس پر ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
لیکن اس طرح کے عوامی فیصلے مزید عوامی فیصلوں کی راہ ہموار کرتے ہیں، جس سے جمہوریت اپنے راستے سے ہٹ جاتی ہے، یہاں تک کہ جمہوریت باقی ہی نہیں رہتی، نام کی حد تک بھی نہیں۔
یہ ملک کئی بار مطلق العنانیت اور ڈکٹیٹرشپ کے راستے پر سفر کرنے اور بھیانک نتائج جھیلنے کے بعد آج پھر آئینی جمہوریت کے راستے سے ہٹنے پر آمادہ نظر آرہا ہے۔
جو سوال پوچھا جانا چاہیے وہ یہ کہ آخر کرمنل جسٹس سسٹم اتنا کمزور کیوں ہے کہ مجرمان کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ صرف تین ہی تو مراحل ہوتے ہیں جس میں تفتیش، استغاثہ، اور عدالتی کارروائی شامل ہیں۔
عدالتوں ملزمان کو بَری کردینے کے لیے بدنام ہیں، لیکن اصل میں تفتیش اور استغاثہ ہی وہ مراحل ہیں جہاں پر زیادہ تر کیسز ناکام ہوجاتے ہیں، اور جہاں عدلیہ کی غلطی ہوتی ہے، وہ زیادہ تر اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ٹرائل ججز کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔
کیا پاکستان میں یہ مسائل فوراً حل نہیں کیے جاسکتے؟ کیا جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لیے جمہوری طریقہ کار موجود نہیں ہے؟ فوجی عدالتیں بلاشبہ اس بات کا جواب نہیں ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 31 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔