'وہ بالکل کسی ہارر فلم کی طرح تھا'
پشاور : "آپ ایک ایسے فرد کو کیسے بھول سکتے ہیں جو گزشتہ چھ یا سات سال سے کلاس میں آپ کے برابر بیٹھ رہا ہو اور پھر ایک دن آپ کی گود میں دم توڑ جائے"۔
یہ سوال عامر امین نامی ایک طالبعلم نے کیا ہے جس کے بہترین دوست ایمل خان کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول و ڈگری کالج میں دہشت گردوں نے منگل کو حملہ کرکے ہلاک کردیا۔
یہ دونوں دوست اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ انٹر کے ایک پرچے کے بعد کالج کی راہداری پر بیٹھے ہوئے تھے جب انہوں نے مسلح افراد کے دوڑنے اور فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ ان بچوں نے ایک قریبی کیمسٹری لیبارٹری میں پناہ لی مگر کوئی فائدہ نہ ہوسکا کیونکہ دہشت گردوں نے وہاں آکر بے رحمی سے طالبعلموں پر فائرنگ شروع کردی۔
اس خوفناک واقعے کو بیان کرتے ہوئے عامر امین کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے ایک بھوت دیکھ لیا اور اس کی آواز لرز رہی تھی " میں ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک خاموشی سے لیٹا رہا، مجھے ڈر تھا کہ دہشت گرد پھر واپس آسکتے ہیں"۔
اسے پاک فوج کے اہلکاروں نے دہشت ناک گھنٹے کے بعد بحفاظت وہاں سے نکالا مگر وہ اب تک اس دہشت ناک سوچ سے باہر نہیں نکل سکا کہ اس کا سب سے بہترین دوست ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
عامر امین آرمی پبلک اسکول میں انٹرمیڈیٹ کا طالبعلم تھا جس پر فائرنگ کی گئی مگر وہ اس لیے بچ گیا کیونکہ دہشت گردوں کو لگا کہ وہ مرچکا ہے۔
عامر کے بھائی اسحاق امین بھی اس سانحے میں شدید زخمی ہوا، وہ اس وقت سی ایم ایچ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے جبکہ عامر کے زخموں کا علاج لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ہوا۔
عامر جب اس سانحے کی خوفناک تفصیلات بیان کررہا تھا تو اس کا ایک نوجوان کزن بستر کے کنارے پر اس کا ہاتھ تھامے اسے تسلی دینے کی کوشش کررہا تھا تاہم عامر غم کی انتہا پر پہنچ کر حواس سے محروم ہوگیا۔
تاہم اس سے پہلے عامر نے بتایا کہ لیبارٹری میں چار اساتذہ اور چھ بچوں نے بھی چھپنے کی کوشش کی " ان سب کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا اور صرف میں ہی بچ سکا کیونکہ میں بے ہوش ہوگیا تھا اور دہشت گردوں کو لگا کہ میں مرچکا ہوں"۔
اس نے مزید بتایا کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا زیادہ خون اور لاشیں نہیں دیکھی تھیں " وہ بالکل کسی ہارر فلم کی طرح لگتا تھا مگر وہ سب حقیقی تھا"۔
عامر اب اپنے ایک اور زخمی دوست سعد حسن کو لے کر کافی فکر مند ہے جو شدید طور پر زخمی ہوا تھا اور اب تک اس کے بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی " اپنے بہترین دوست ایمل کو بھولنا بہت مشکل ہے جس کی تدفین گزشتہ شام ہوئی"۔
متعدد لڑکے اب تک اس امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں کہ وہ دوبارہ اپنے دوستوں کو دیکھ سکیں گے، عظیم اللہ آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا جو معجزانہ طور پر فائرنگ کے دوران زخمی تک نہیں ہوا اور اب وہ ہسپتال کے اس وارڈ کے باہر کھڑا ہے جہاں اس کے دوست و کزن انس کا علاج ہورہا ہے۔
اس سے بات کی گئی تو وہ بظاہر پرسکون نظر آیا اور بتایا کہ اس نے دہشت گردوں کو اپنے دوست سمیت اسکول کے دیگر طالبعلموں پر فائرنگ کرتے دیکھا تھا اور وہ منظر ہلا دینے والا تھا " مجھے اب تک یقین نہیں آتا کہ میں بچ نکلا ہوں"۔
اس نے مزید بتایا " میرے دوست وحید کے منہ پر گولی لگی جبکہ ایک اور دوست بھی زخمی ہے"۔
حارث خان کے انکل محمد ادریس آرمی پبلک اسکول میں انگریزی کے استاد تھے اور اس نے بتایا کہ میرے انکل کے بیٹے کو بھی گولی لگی تھی جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرعلاج ہے " وہ میرے بھائی کی طرح ہے اور ہم اللہ کے شکرگزار ہے کہ وہ زندہ ہے"۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بڑی تعداد میں لوگ اپنے زخمی دوستوں اور خاندان کے افراد کے لیے موجود ہیں اور وہ سب سکتے کی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں کیونکہ متعدد لوگوں سے تو اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بولا بھی نہیں گیا اور وہ بس آنسو بہاتے رہے۔
بنوں سے تعلق رکھنے والی فرح اور اس کی کزن اس حملے میں زخمی ہوئی اور ابتدا میں تو اس سے بتایا بھی نہیں گیا کہ وہ کتنا غصہ اور تکلیف محسوس کررہی ہے، اس نے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی غصے کا اظہار کیا " ہم خود کو محفوظ تصور نہیں کررہے"۔
فرح نے دہشت گردوں کے حملے کی روک تھام میں ناکامی پر سیکیورٹی فورسز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے زخمی اور مردہ لڑکوں کو دیکھا تھا جنھیں انتہائی سنگدلانہ انداز سے ہلاک کیا گیا تھا اور یہ دیکھ کر اسے کربلا کا واقعہ یاد آگیا۔