کے پی میں دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے خواتین کمانڈوز تیار
پشاور : خیبرپختونخوا پولیس نے اپنا خواتین کمانڈوز کا پہلا دستہ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انتہائی سنگین حالات، دہشت گردی کے واقعات اور صوبے کے کسی بھی حصے میں جرائم میں ملوث خواتین کی چیکنگ کے لیے زیادہ مدد مل سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے محکمے نے اس حوالے سے ڈیڑھ سو کمانڈوز پہلا خصوصی لڑاکا یونٹ (ایس سی یو) تیار کیا ہے تاکہ کسی بھی طرح کے سنگین مقدمات جیسے صوبے میں انسانی آفات کے مختلف واقعات میں وہ پولیس فورس کی معاونت کرسکے۔
اس بات کا انکشاف انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا ناصر خان درانی نے ڈان سے خصوصی انٹرویو کے دوران کرتے ہوئے بتایا کہ جرائم کی روک تھام کے لیے پولیس میں خواتین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تاہم ماضی میں اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا"ہم نے پہلے پولیس تھانوں میں خواتین ڈیسک قائم کی تاکہ صنف نازک کو اپنی شکایات درج کرانے میں مشکل نہ ہو، جبکہ چالیس رکنی خواتین کمانڈوز کا گروپ دہشت گردی، انتہا پسندی اور عام جرائم کی روک تھام میں اپنی صلاحیتوں کو منوائے گا۔
ایس سی یو کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کے لیے خواتین کا انتخاب پہلے سے موجود ایلیٹ فورس سے کیا گیا ہے جنھیں فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کی طرز پر تربیت دی گئی ہے تاکہ وہ چیلنجز کا سامنا کرسکیں۔
اس خصوصی دستے کو پیراٹروپ کی حیثیت سے تربیت دی جائے گی اور انہیں ایسے ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا جبکہ ان کی فوری طلبی کو یقینی بنانے کے لیے ہیلی کاپٹر کی سہولت فراہم کی جائے گی تاکہ وہ کسی فوری ضرورت کے دستیاب ہوسکیں۔
ان کا کہنا تھا"اس فورس کو صوبے کے کسی بھی حصے میں اسٹنگ آپریشنز، انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں، جرائم کی روک تھام، ہیلی کاپٹر اور فضائی آپریشن سمیت پانی میں کیے جانے والے آپریشنز کے لیے آزادانہ یا پولیس کے دیگر یونٹس کی معاونت کے لیے استعمال کیا جاسکے گا"۔
انہوں نے بتایا کہ اغوا برائے تاوان اور بھتوں کے کیسز میں دہشت گرد ملوث ہیں جو فوجی آپریشن ضرب عضب سے ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز جمع کرنے کی کوشش کررہے ہیں" تحریک طالبان مہمند نے افغان سرحد سے دور ہیڈکوارٹرز بنارکھے ہیں اور تمام تر مجرمانہ سرگرمیاں افغان سموں کی مدد سے کی جارہی ہیں، اسی طرح خیبرایجنسی میں سرگرم عسکریت پسند گروپ لشکر اسلام پشاور میں جرائم کا مرکزی ذمہ دار ہے تاہم پولیس اس کا فاٹا میں تعاقب نہیں کرسکتی ہے، توقع ہے کہ فوجی آپریشن کے ذریعے شہری آبادیوں میں بھی جرائم کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی"۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی جغرافیائی پوزیشن کے باعث پشاور بری طرح متاثر ہوا ہے جہاں دہشت گرد آسانی سے داخل ہوکر گرفتاری سے بچنے کے لیے مقامی آبادی میں گم ہوجاتے ہیں، کیونکہ ماضی میں یہاں کسی بھی علاقے کے رہائشیوں کو چیک کرنے کا کوئی قانون نہیں تھا۔
تاہم موجودہ صوبائی حکومت نے پولیس کی مشاورت سے متعدد قوانین کی منظوری دی ہے جس سے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
تفتیش کے ناقص طریقہ کار کا حوالے دیتے ہوئے آئی جی نے کہا کہ ماضی میں صوبے میں صرف دو تربیتی مراکز کوہاٹ اور مانسہرہ میں واقع تھے، جوعصری ضروریات کے لیے ناکافی تھے مگر اب مزید دو نئے تربیتی اسکول مالاکنڈ اور صوابی میں کھولنے کی منظوری دی گئی ہے جس سے فورس کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا'یہ ہمارا کریڈٹ ہے کہ حیات آباد میں ایک تفتیشی اسکول کھولا ہے، انٹیلی جنس کے لیے ایک اسکول ایبٹ آباد اور دھماکہ خیز مواد کی روک تھام، ٹریفک منیجمنٹ، عوامی انتشار وغیرہ کے لیے بھی کے پی میں جلد چار مراکز کھولے جائیں گے"۔
دہشت گردی کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طورخم بارڈر پر لوگوں کی غیرمعیاری چیکنگ، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی آزادانہ نقل و حمل اور افغان سموں کا بے تحاشہ استعمال مسائل کو بڑھا رہا ہے۔
آئی جی کے پی نے بتایا کہ محرم کے بعد ایس ایم ایس شکایتی نظام متعارف کرایا جائے گا اور عام شہری ایس ایم ایس کے ذریعے کسی بھی وقت ان سے رابطہ کرسکیں گے۔