پاکستان

بے گھر قبائلیوں کے جرگے کی اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکی

جرگے نے کہا کہ وہ غیرانسانی زندگی گزار رہے ہیں اور ان سے مجرموں کا سا سلوک کیا جارہا ہے، جو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

کوہاٹ: وفاقی کے زیرانتظام قبائلی علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کے ایک جرگے نے بدھ کے روز دھمکی دی کہ اگر وفاقی حکومت ان کی جلد از جلد گھروں کو واپسی کے لیے ایک نظام الاوقات کا اعلان نہیں کرتی تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے۔

یہاں کمپنی پارک میں منعقدہ اس جرگے سے خطاب کرتے ہوئے قبائلیوں کی متحدہ تنظیم کے نائب چیئرمین حبیب نور آفریدی نے افسوس کا اظہار کیا کہ فاٹا سے نکلنے کے بعد حکومت نے بے گھر خاندانوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی۔

حبیب نور آفریدی نے کہا کہ وہ خیمہ کیمپوں میں جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کے ساتھ مجرموں کی مانند سلوک کیا جارہا ہے، جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم حکومت سے کوئی معاوضہ لیے بغیر ملک کی مغربی سرحدوں کی تقریباً 67 برسوں سے حفاظت کررہے ہیں، لیکن اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی و جنوبی وزیرستان ایجنسی، درّہ آدم اور بیٹانی کے قبائلی علاقے میں کارروائیوں کے بعد حکمرانوں نے ہمیں غیرانسانی حالت میں چھوڑ دیا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیمپوں میں ان کے طویل قیام سے ان کے بچوں کا مستقبل برباد ہوکر رہ گیا ہے۔

حبیب نور آفریدی نے کہا کہ کرم، اورکزئی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں اور درّہ آدم خیل سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے، وہ کوہاٹ اور صوبے کے دوسرے ضلعوں میں غلیظ خیموں اور کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ قبائلی افراد کے ساتھ یکساں برتاؤ کیا جانا چاہیے اور شمالی وزیرستان ایجنسی اور فاٹا کے دوسرے حصوں سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کو معاوضے کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔

اس جرگے میں اورکزئی ایجنسی سے سابق وفاقی وزیر غازی گلاب جمال ، ریٹائرڈ اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس رحمت علی، مسعود ملک، ہدایت اللہ، عطاءاللہ اور وزیر شیر پاؤ سمیت فاٹا کے نمائندوں نے شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت فاٹا کی قبائلی حیثیت کا خاتمہ چاہتی ہے اور قبائلی علاقوں کو ملحقہ شہری علاقوں میں ضم کرنا چاہتی ہے تو اسے ایسا کرنے کے لیے قانون کے تحت انہیں مطلع کرنا چاہیے۔

حبیب نور آفریدی نے اسے ان کی آزادی کے خلاف ایک سازش قرار دیا، جس کی انہیں آئین کے ذریعے ضمانت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران ہر ایک خاندان کے دس سے پندرہ افراد فوجی آپریشنوں اور ڈرون حملوں میں ہلاک ہوگئے تھے، اور پھر بھی حکومت ان کی بھلائی کو نظرانداز کررہی ہے۔

ان کا مطالبہ تھا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کو فوری طور پر اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ بالفرض حکومت ان کی واپسی کے لیے نظام الاوقات وضع نہیں کرتی تو یہ قبائلی افراد پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

اس کے علاوہ انہوں نے کوہاٹ کرم ایجنسی شاہراہ کو بھی بند کرنے کی دھمکی دی۔

قبائلی عمائدین نے اعلان کیا کہ اس طرح کے مزید اجتماعات خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں بھی منعقد کیے جائیں گے۔

انہوں نے فاٹا میں اسکول کھولنے اور ناخواندگی کے خاتمے لیے مزید تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔