پاکستان

نایاب کچھوؤں کی اسمگلنگ میں اضافہ

نایاب کالے دھبے والے کچھوؤں کی غیر قانونی بین الاقوامی تجارت میں گزشتہ دو سال کے دوران اضافہ ہوگیا ہے۔

کراچی: نایاب کالے دھبے والے کچھوؤں کی غیر قانونی بین الاقوامی تجارت میں گزشتہ دو سال کے دوران اضافہ ہوگیا ہے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ تر کچھوؤں کی تجارت جنوبی ایشیا (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) سے ہوتی ہے جہاں ان جانوروں کو جمع کرکے ’ہول سیل‘ پر تھائی لینڈ بجھوادیا جاتا ہے۔

ایشیا میں ہونے والی اس تجارت کی معلومات 2008 جنوری سے لیکر 2014 مارچ تک کے کیسز کا مطالعہ کرنے کے بعد جاری کی گئیں۔

کالے دھبے والے کچھوے آئی یو سی این کی لال فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان کی ہر سطح پر بین الاقوامی تجارت غیر قانونی اور کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 1960 جانوروں کو 22 چھاپوں میں جنوری 2008 سے مارچ 2014 کے درمیان بازیاب کروایا گیا جبکہ جنوری 2013 کے بعد سے اب تک 14 چھاپوں میں 1865 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 اور 2014 کے دوران ان کچھوؤں کی شپمنٹ میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کچھوؤں کی مانگ میں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ تھائی لینڈ اس فہرست میں پیش پیش ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا میں مارے گئے دو چھاپوں کے علاوہ تمام چھاپے ہوائی اڈوں پر مارے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کچھوؤں کی اسمگلنگ کے لیے زیادہ تر فضائی راستے کا استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تازہ پانی کے کچھوؤں سمیت دیگر کچھوؤں کی کئی دیگر اقسام بھی اسی طرح کی بین الاقوامی اسمگلنگ کا حصہ ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بینکاک اس اسمگلنگ کا حب بن چکا ہے کیوں کہ اب تک بینکاک کے دو ہوائی اڈوں سے نو چھاپوں کے دوران 1112 کالے دھبے والے کچھوے بازیاب کروائے جاچکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف نومبر 2013 کے ایک ہفتے کے دوران مارے گئے تین چھاپوں میں 594 کچھوے بازیاب کروائے گئے۔

رپورٹ میں دیگر اقسام کے کچھوؤں کی اسمگلنگ کے حوالے سے بھی معلومات فراہم کی گئیں۔ کالے دھبے والے کچھوے کے علاوہ انڈین اسٹار کچھوہ اور ریڈی ایٹڈ کچھوے کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر ان کچھوؤں کو بنگلہ دیش کے ذریعے تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، تائپے اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اسمگل کیا جاتا تھا۔

2009 اور 2010 کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کچھوؤں کو پالتو جانوروں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جبکہ کچھ کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے۔

اس سے قبل ان کچھوؤں کی اسمگلنگ زیادہ تر یورپ اور امریکا ہی میں ہوا کرتی تھی جہاں انہیں پالتو جانور بنایا جاتا تھا تاہم حالیہ عرصے میں جنوب مشرقی ایشیا اس اسمگلنگ کا گڑھ بن گئی ہے۔

رپورٹ میں ایک اور سروے کا حوالے دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کچھوؤں کے بچوں کو ملائشیا میں 243 ڈالر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

رپورٹ میں مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان کچھوؤں کا گوشت روایتی طور پر مشرقی ہندوستان میں کھایا جاتا ہے تاہم اب یہ گوشت چین کی مارکیٹوں میں بھی دکھائی دینے لگا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ان کچھوؤں کی کمرشل تجارت ریسرچ میں بتائی گئی اعداد و شمار سے کئی زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ کئی جرائم پیشہ عناصر بھی اب بڑی تعداد میں اس کام میں ملوث ہونے لگے ہیں۔

خیال رہے کہ کالے دھبے والے کچھوؤں کو پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں تحفظ حاصل ہے۔

رپورٹ میں ان ممالک پر آپس میں اس مسئلے کے حوالے سے زیادہ تعاون پر زور دیا گیا جبکہ اس حوالے سے آگاہی مہمات کا بھی انعقاد کیا جانا چاہیے۔