پاکستان

میٹھا پانی، دیہی اور شہری علاقوں کی یکساں اہم ضرورت

میٹھے پانی کی کمی کے بحران پر ایک سیمینار میں دریا کے آخری سرے پر رہنے والوں کے مسائل کو اُجاگر کیا گیا۔

کراچی: سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے صنعتی حب میں پینے کے پانی کا بحران گہرا ہوتا جارہا ہے، اس حوالے سے ایک راست اقدام کے طور پر سرونٹس آف سندھ سوسائٹی نے اسٹرینتھننگ پارٹیسپیٹری آرگنائزیشن (ایس پی او) اور واٹر سیکٹر امپروومنٹ پروجیکٹ (ڈبلیو ایس آئی پی) کے تعاون سے اتوار کو ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔

اس سیمینار کے دوران مقررین نے سندھ میں آبپاشی کا انتظام، مسائل اور ممکنہ حل کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ طویل عرصے سے ماضی اور حال کی حکومتوں کی وجہ سے جاری ہے۔

ایس پی او کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نصیر میمن نے اپنی تقریر میں کہا ’’آبپاشی کے پانی کو دیہی علاقوں کی معیشت سے متعلق ایک مسئلہ سمجھاجاتا ہے، جو کہ ایک غلط تصور ہے، اس لیے کہ یہ شہروں کا بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے، جیسا کہ دیہی علاقوں کا ہے۔‘‘

منچھر جھیل کے بارے میں بات کرتے ہوئے نصیر میمن نے کہا کہ یہ پاکستان میں میٹھے پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔’’لیکن اب نہیں رہی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی اعتبار سے یہ جھیل 200 سے زیادہ مچھلیوں کی اقسام کے علاوہ اپنے اردگرد کے علاقوں میں پرندوں کی تقریباً 100 انواع رکھتی تھی۔

’’اس جھیل سے حیدرآباد کو فراہم کیے جانے والے پانی سے 2004ء میں پچاس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ سانحہ زہریلے پانی کی وجہ سے ہوا تھا۔ لیکن اس سانحے پر اجتماعی طور پر خاموشی اختیار کرلی گئی کہ ایسا کیوں ہوا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اس میں ایک بڑا کردار واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کا ہے، جو اس میں ملؤث ہے، اس کی رپورٹ کے مطابق یہ پانی پینے کے قابل تھا۔ یہ نگرانی کی ایک واضح ناکامی تھی اور اب تک کسی ایک متعلقہ ادارے سے اس سانحے کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی گئی ہے۔‘‘

نصیر میمن نے کہا کہ اس خبر کو اگر کچھ اہمیت دی گئی تھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہلاکتیں ایک شہر میں واقع ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا ’’اگر یہ دیہی علاقہ ہو تو اس سانحہ کی خبر غلط انداز سے پیش کی جائے گی اور اس کو محدود انداز سے دیکھا جائے گا۔اس کے برعکس اگر کوئی زمینی حقائق دیکھے تو دیگر ملکوں میں اس طرح کا واقعے پر خطرے کی گھنٹیاں بج جاتی ہیں۔‘‘

نصیر میمن نے تجویز دی کہ حکومتِ سندھ کو جانچ پڑتال کا ایک پینل تشکیل دینا چاہیٔے جو اس سلسلے میں واپڈا کے کردار کا جائزہ لے۔

دریا کے آخری سرے پر رہنے والے لوگوں کے تباہ کن تجربات پر بات کرتے ہوئے سندھ اری گیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی (سیڈا) کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر محمد ہاشم لغاری نے کہا کہ الگ الگ ریاستی اداروں کی جانب سے آبپاشی اور زراعت کے ساتھ نمٹا جاتا ہے۔ ’’اس شعبے کو کم ترجیح دینے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔‘‘

مقرر کیے گئے بہت سے وزیر اس جیسے مسئلوں سے نمٹنے کے لیے کافی اختیارات نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کہ کوئی بھی برطرف نہیں ہونا چاہتا۔

ڈبلیو ایس آئی پی کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر فتح مری نے اپنی پریزنٹیشن کے ذریعے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مسئلے کو حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی مقدار محدود ہے اور اس کی طلب ایک دہائی کے مقابلے میں کئی گناہ بڑھ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی صورتحال میں پانی سے متعلق لوگوں کے حقوق کا لازماً احترام کیا جائے۔ دریا کے آخری سرے پر رہنے والوں کے حقیقی مسائل سے نظام میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی آگاہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر فتح مری نے تجویز دی کہ ٹیکس کے نظام کی جانچ پڑتال، ادارتی اصلاحات اور آبپاشی کے شعبے میں ’حاضر جناب‘ قسم کے لوگوں کے بجائے پیشہ ورانہ مہارت متعارف کروائی جائیں، یہی اس نظام کی اصلاح کا ایک راستہ ہے۔‘‘

بیراجوں پر بات کرتے ہوئے سندھ کے سابق سیکریٹری برائے آبپاشی ادریس راجپوت نے تفصیلی پریزنٹیشن دی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’پاکستان کے چھ بیراجوں میں سے تین سندھ میں ہیں، جن میں سکھر، کوٹری اور گدو پر واقع ہیں۔ لیکن ان کے انتظام میں بہت بڑا فرق دکھائی دیتا ہے۔‘‘

’’تربیلا کے پانی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک ذیلی بندھ تیار کیا جارہا ہے اور پرانے جناح بیراج کے دروازوں کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ اسی طرح دوسرے بیراجوں پر بھی کیا جارہا ہے۔ بیک وقت معاون دریاؤں پر نئے بیراج بنائے جارہے ہیں۔ (جو براہ راست دریا پر نہیں ہیں، لیکن دیگر دریا یا نہر سے جڑے ہوئے ہیں۔)‘‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت سکھر بیراج جو دریائے سندھ پر سب سے پرانا بیراج ہے، بڑی تعداد میں مسائل کا شکار ہے، جس میں پانی کے بہاؤ کی صلاحیت میں کمی بھی شامل ہے۔

ادریس راجپوت نے کہا ’’میں تجویز دوں گا کہ سکھر بیراج کے قریب ایک نیا بیراج تعمیر کیا جائے اور بیراج کے ساتھ ساتھ دائیں جانب ایک اسپل چینل یا بائی پاس بیراج لازماً تعمیر کیا جائے۔‘‘

سابق وفاقی سیکریٹری فضل اللہ قریشی نے اپنا نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ ’’وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اعدادوشمار کے اشتراک میں اختلافات کی نشاندہی کی۔‘‘

سیمینار کے اختتام پر ماہرین نے ایک قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ زراعت اور آبپاشی پر ایک کمیشن قائم کرنے کی ضرورت ہے جو پانی کی کمی، پانی کی مساویانہ تقسیم جس سے دریا کے آخری سرے پر رہنے والوں تک بھی پانی پہنچ سکے، جیسے مسائل کی نگرانی کرے۔

دوسرے ماہرین نے یہ تجویز دی کہ حکومت پنجاب میں تونسہ بیراج کے نچلے حصے پر پانی کی چوری کو کنٹرول کرےتاکہ سندھ اور بلوچستان کو ان کے حصے کی وصولی کو یقینی بنایاجاسکے۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ آبپاشی اور زرعی نظام کی مکمل طور پر مرمت کی جائے اور آربی او ڈی منصوبے کی تکمیل منچھر جھیل کی تباہی کی بنیادی وجہ ہوگی، اس لیے کہ اس کا نمکین پانی اس پوری جھیل کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔