ہندوؤں کا خوبصورت تہوار، راکھی
کراچی: ناریل، مٹھائیاں، اگربتی اور کم کم کے ساتھ تھالی تیار ہے،لیکن اس میں ایک اہم چیز تو رہ گئی ہے، اور وہ ہے راکھی ۔
بھائیوں اور بہنوں کے درمیان محبت کے رشتے کے خوبصورت تہوار رکھشا بندھن کو منانے کے لیے شہر بھر سے ہندو لڑکیاں اور خواتین اتوار کے روز نیٹی جیٹی پر شری لکشمی نارائن مندر پر اکھٹا ہوئی تھیں۔
منیشا شام لعل نے بتایا کہ ’’میرا اپنا بھائی گھر پر ہے، لیکن میں نے ایک نیا بھائی بنایا ہے، جو مسلمان ہے اور میں نے اس کی کلائی پر راکھی باندھی ہے۔‘‘
روایتی طور پر جب ایک بہن اپنے بھائی کی کلائی پر راکھی باندھتی ہے تو بھائی جواب میں اس کو تحفہ دیتا ہے، لیکن منیشا کہتی ہیں کہ وہ اپنے نئے بھائی کی دعاؤں سے ہی بہت خوش ہیں۔
لیکن نٹور دھانجی جو دبئی سے چھٹیوں پر آئے تھے، اس تہوار کے لیے پوری تیاری کے ساتھ آئے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’میں ساڑھیاں، میک اپ کا سامان اور پرفیومز اپنی دو بہنوں کوشلیا اور یشودھا کے لیے لایا ہوں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ میں ان کی پسند جانتا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مندر میں صرف پوجا کے لیے آئے تھے، اور انہوں نے راکھی باندھنے کی تقریب اپنے گھر میں صبح کے وقت پہلے ہی منالی تھی۔
ان کی والدہ امرتی دیوی نے کہا ’’پوجا کے بعد سب سے پہلے ہم اپنے بھگوان گنیش یا رام کو راکھی باندھے ہیں، پھر ہمارے دنیاوی بھائیوں کی باری آتی ہے۔‘‘ایک اور بھائی دیو جی، جو اس مندر میں پوجا کے لیے آئے تھے، نے نیٹی جیٹی پل کے نیچے پانی کی لہروں کی جانب اشارہ کیا، جہاں کئی خواتین اکھٹا ہوکر دعا مانگ رہی تھیں اور مختلف پھل اور دیگر پرشاد کی ٹوکری پانی میں بہا رہی تھیں۔
انہوں نے کہا ’’رکھشا بندھن کا یہ دن جون اور جولائی کے گزرنے کے بعد آتا ہے، ہم اس دن پھل اور دیگر پرشاد اس امید کے ساتھ سمندر کی نذر کرتے ہیں کہ ہمیں سکون حاصل ہوگا۔‘‘
اس مندر کے نگران ارجن نے مسکراتے ہوئے بتایا ’’شری لکمشمی نارائن مندر میں لوگ ہر طرف سے آتے ہیں، خاص طور پر اس وجہ سے کہ یہ پانی کی لہروں کے قریب ہے۔ کچھ لوگ پوجا کرتے ہوئے یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ دریائے گنگا کے سامنے ہیں۔ اور اگر آپ سوچیں تو آپ نہیں کہہ سکتے کہ کس مقام پر گنگا کا پانی اس پانی سے مل جاتا ہو۔‘‘
راکھی بیچنے والے میرپورخاص کے مسلمان
اس مندر کے ساتھ تنگ راستے پر ایک قطار میں خوبصورت راکھیاں فروخت کی جارہی تھیں۔ راکھیاں فروخت کرنے والے میرپورخاص سے سفر کرکے کراچی آئے تھے، انہوں نے خود کو مسلمان بتایا۔
محمد ایوب نے بتایا ’’ہم صرف راکھیاں ہی نہیں بلکہ امام ضامن بھی بناتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سب سے مہنگی راکھی کی قیمت پچاس روپے اور سب سے سستی راکھی دس روپے کی ہے۔
زیادہ تر راکھیاں درمیان میں موتیوں کی لڑی کے ساتھ سرخ اور نارنجی دھاگوں سے تیار کی گئی تھیں۔لیکن محمد اشفاق کے پاس کچھ سفید راکھیاں بھی تھیں۔
انہوں نے کہا ’’یہ درست ہے کہ سرخ اور نارنجی سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں، لیکن سوائے سیاہ رنگ کے تمام رنگوں کو راکھیوں کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
خوبصورت راکھیاں فروخت کرنے والوں میں سے ایک سعیدہ بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ ہر سال یہاں آتی ہیں، اور راکھیوں کی فروخت سے انہیں اپنے سفر کے اخراجات کے ساتھ کچھ معمولی منافع بھی مل جاتا ہے۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا ’’جو اس سال فروخت نہیں ہوسکیں گی، میں انہیں اگلے سال پھر لے آؤں گی۔‘‘