پاکستان

ساہیوال: پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کی تحفظ کی اپیل

ماریہ اور صابر نے 14 جون کو پاکپتن میں کورٹ میرج کی تھی، ماریہ کے والد نے اغواء کا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔

ساہیوال: پسند کی شادی کرنے والے جوڑے نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ضلعی پولیس سے تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔

ہفتے کو ڈسٹرکٹ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے موقع پر جوڑے نے مدد کی اپیل کی۔

بیس سالہ ماریہ نے دارالامان ساہیوال میں پناہ حاصل کر رکھی ہے جبکہ اُس کا شوہر چوبیس سالہ صابر حسین نامعلوم مقام پر روپوش ہے۔

ماریہ بی بی اور صابر حسین نے ڈان کو بتایا کہ انہیں ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیشی کے موقع پر تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، تاکہ وہ جوڈیشل مجسٹریٹ رانا انیل ارشد کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کراسکیں۔

اس سے قبل جوڑے نے عدالت میں حاضر ہونے کی کوشش کی تھی، لیکن لڑکی کے والدین، اُن کے وکلاء اور بھائیوں کی جانب سے اُنہیں اپنا بیان ریکارڈ کروانے نہیں دیا گیا۔

جوڑے کا کہنا ہے کہ انہوں نے 14 جون کو پاکپتن میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے کورٹ میرج کی تھی۔

صابر کے گھر والوں نے اس شادی کو قبول کرلیا ہے، لیکن ماریہ کے والد نور احمد نے یوسف والا پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروا رکھی ہے کہ اُن کی بیٹی کو اغواء کیا گیا ہے۔

نوجوان خاتون کے والد کے مطابق ایس ایچ او قلب سجاد نے 26 جون کو دونوں پارٹیوں کو بلایا اور ہمیں ڈرایا دھمکایا۔

اُس کے بعد انہوں نے ہمارے آدمیوں عمر فاروق، یاسین، اختر اور یوسف کو چوبیس گھنٹے کے لیے لاک اپ میں قید کر دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یوسف والا پولیس نے اغواء کی ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے انہیں اور ان کے ساتھ آنے والے افراد کو دفعہ 7/51 کے تحت حراست میں لے لیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکی کے والدین نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے اُس کا برتھ سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جس کے تحت ماریہ ابھی صرف تیرہ برس کی ہے۔

لڑکی کے شوہر صابر نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس کی بیوی کے والدین نے جہان خان کی ایک یونین کونسل کے سیکرٹری سے جعلی پیدائشی سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔

تفتیشی افسر الطاف حسین نے ڈان کو بتایا کہ دونوں پارٹیوں اور اُن کے وکلاء میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس جوڑے کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی اور اُن کا بیان ریکارڈ کروانے کی کوشش کرے گی۔