کٹاس راج مندر۔ چراہ گاہ میں تبدیل
چکوال: اقلیتوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ کے سلسلے میں بظاہر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی جانب دعوے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن حقائق دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے یہ دعوے کس درجے پر ہیں۔
کٹاس راج مندروں کا کمپلیکس کی مثال لے لیجیے جو دنیا بھر میں ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ اس کمپلیکس کو مویشیوں کی چراہ گاہ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت اس مقدس مقام کے اردگرد چاردیواری کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ روپے خرچ کیے تھے، اس کے علاوہ اس کی تزئین و آرائش کے لیے تین کروڑ روپے کی مالیت کا ایک منصوبہ حال ہی میں مکمل ہوا تھا۔
تاہم ان مندروں کی دیکھ بھال کے لیے ایک بھی چوکیدار مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
اس صورتحال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کے لیے اس علاقے کے دیہاتیوں نے اپنے جانوروں کو کٹاس راج مندر کے مرکزی دروازے سے اندر لانا شروع کردیا ہے۔
اپنے جانوروں کو اس مقدس مقام کے احاطے میں چھوڑنے کے بعد یہ چرواہے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں، جبکہ یہ جانور سارا دن میدان کے بغیر کسی نگرانی کے چاروں طرف چرتے رہتے ہیں۔
یہ مویشی ناصرف مندر کے مقدس مقام کی بے حرمتی کرتے ہیں، بلکہ اپنے فضلے سے اس کو آلودہ بھی کرتے ہیں۔
تاہم متعلقہ دونوں محکمے، متروکہ املاک بورڈ اور محکمہ آثارِ قدیمہ پنجاب، اس صورتحال کا مستقل حل نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔
شیوراتری کے دوران یا جب ہندوستان سے ایک ہندو وفد یہاں آتا ہے تو دونوں محکمے اپنی بھاگ دوڑ سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس مقام کی باقاعدہ حفاظت کی جارہی ہے، لیکن بقیہ پورا سال اس مندر کو جانوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک مقامی ہندو روندر کمار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’یہ ہمارے لیے نہایت تکلیف کا باعث ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ اس مندر پر ایک مستقل چوکیدار کی تعیناتی کے لیے انہوں نے بہت سی درخواستیں متعلقہ حکام کو بھیجی تھیں، لیکن سب بیکار گئیں۔
لاہور میں ہندو سدھار سبھا کے صدر امرناتھ رندھاوا نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کٹاس راج مندر کی حالتِ زار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
امرناتھ نے کہا ’’ہمارے مقدس مقام پر جانوروں کی موجودگی، انتہائی قابلِ مذمت ہے۔‘‘
انہوں نے متعلقہ محکموں پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری کارروائی کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’کٹاس راج پر ایک ہندو چوکیدار کا مستقل طور پر تقرر کیا جانا چاہیٔے، اس لیے کہ ایک ہندو شخص ہی اس مقام کی مناسب دیکھ بھال کرسکتا ہے۔‘‘
جب متروکہ املاک بورڈ کے ڈپٹی سیکریٹری اظہر سلہری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ مندر پنجاب کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے حوالے کردیے گئے تھے، لہٰذا اس مقام کی دیکھ بھال ان کی ذمہ داری تھی۔
تاہم جب پنجاب کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر افضل خان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی تو انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’کٹاس راج پر اس طرح کی صورتحال کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیٔے تھا۔‘‘ اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس معاملے پر توجہ دیں گے۔