چوہدری نثار اور وزیراعظم میں 'دوریاں'
اسلام آباد:وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نواز کے رہنما چوہدی نثار علی خان ایک بار پھر خبروں میں ہیں لیکن اس مرتبہ وہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات یا سیکورٹی معاملات کی وجہ سے سامنے نہیں آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق چوہدری نثار ان دنوں نواز شریف سے ناخوش ہیں اور اس بات کا اندازہ چند روز قبل کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کی رات نیوز چینلز سے ان کی غیرحاضری سے لگایاجاسکتاہے۔
اس بات کا انکشاف سب سے پہلے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ اور ایئر پورٹ حملے پر اپنی تقریر کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ حملے کی رات سے اگلے روز صبح تک وزیراعظم نواز شریف کو اپنے وزیر داخلہ کا پتا ہی نہیں تھا۔ قائد حزب اختلاف نے اپنے طویل خطاب میں حکومت پر شدید تنقید کی۔
اس دوران پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے والے چوہدری نثار کی غیر حاضری کوبہت سے لوگوں نے محسوس کیا ۔
چوہدری نثار قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کئے جانے کے بعد سے ایوان میں پیش نہیں ہوئے ہیں۔
اس دوران وزیراعظم بھی ایوان میں دو مرتبہ حاضر ہوئے تاہم ہر بار چوہدری نثار ان کے ساتھ موجود نہیں تھے حالانکہ وہ اسمبلی میں وزیراعظم کے ساتھ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔
کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ جب جمعرات کو وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو وزیر داخلہ ان کے ہمراہ تشریف نہیں لائے تاہم وہ کچھ دیر بعد اکیلے ہی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوئے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چوہدری نثار کی غیرحاضری بلا ارداہ نہیں بلکہ یہ نواز شریف کے لئے پیغام ہے۔ ہر کوئی ان باتوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں تاہم حکومتی پارٹی کے ذرائع نے اس بات سے اتفاق کیا ۔
مسلم لیگ نواز کے ایک اہم رہنمانے نام نہ طاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ مرکزی قیادت کے کام کرنے کے طریقہ کارکی وجہ سے چوہدری نثار اور بہت سے سینئر پارٹی رہنماناخوش ہیں۔
اس بے اطمینانی کا تعین بجٹ اجلاس سے قبل ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں کو بجٹ سے متعلق کوئی بھی معلومات فراہم نہ کرنے سے کیا جاسکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے معاملات میں کسی کو دخل دینے کی اجازت نہیں ۔
اسحاق ڈار کی جانب بجٹ 2014-15ء کے حوالے سے کسی قسم کا مشورہ نہ کرنے اور معلومات کا تبادلہ نہ کرنے پر چوہدری نثار اور دیگر رہنما نالاں نظر آتے ہیں۔
ایک اور ن لیگی رہنما نے بتایا کہ وزیر داخلہ جیو نیوز انتظامیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشمکش کے معاملے پر وزیراعظم کے کردار سے بھی ناراض ہیں۔
اس بارے میں مزید تفصیلات پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ چوہدری نثار نے ایک غیر منتخب مشیر اور وفاقی وزیر کے مشورے پر حکومت کو آئی ایس آئی اور جیو کے تنازعے میں نازک صورتحال پر لاکر کھڑا کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ چوہدری نثارچاہتے تھے کہ اس معاملے پر حکومت کو خاموش رہنا چاہیئے اور یہی نقطہ نظر پارٹی کے چند اور رہنماؤں کا بھی تھا۔
شاید یہی و جہ ہے کہ چوہدری نثارنے خود کو گزشتہ چند ہفتوں سے میڈیا سے دور کرلیا ہے اور انہوں نے اتوار کو کی جانے والی پریس کانفرنس کا سلسلہ بھی منقطع کردیا ہے۔ آخری بار انہوں نے اتوار کی خصوصی پریس کانفرس اپریل کے دوسرے ہفتے میں کی تھی۔
نیشنل سیکورٹی کے معاملے پر چوہدری نثار کے وزیراعظم سے اختلافات نظر آتے ہیں۔
طالبان سے مذاکرات کے آپشن کے حوالے سے نواز شریف کی جانب سے پارٹی رہنماؤں کی کا ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں انہوں نے اپنا نقطہ نظر نہیں بیان کیا لیکن تمام افراد کی باتوں کو تحمل کے ساتھ سنا۔
نتیجے میں 29جنوری کو وزیر اعظم نے تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت کے لئے چار رکنی کمیٹی کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا۔بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں چوہدری نثار نے اعتراف کیا کہ نواز شریف نے گیارہ گھنٹے قبل اس تقریر میں تبدیلی کی جو کہ اصل میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے اعلان کے لئے تیار کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت امن کے قیام کے لئے کی جانے والی کوششوں میں سنجیدہ ہے ورنہ وزیراعظم طالبان سے مذاکرات کے لئے کمیٹی کے اعلان کے بجائے ان کے خلاف آپریشن کا اعلان کرتے۔
ن لیگ کے دونوں رہنماؤں کا کہناتھا کہ نواز شریف کے طریقہ کار کے حوالے سے خدشات رکھنے والوں میں چوہدری نثار اکیلے نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ن کے علاوہ اگر دوسری جماعتوں کو بھی دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے ممبر پارلیمان اپنی جماعت کی قیادت سے ناراض ہیں،اور قیادت اور پارلیمنٹیرین میں دوریاں ایک عام شکایت ہے۔
تاہم چوہدری نثار کی ناراضگی اور ان کا رویہ عوام کے لئے بالکل نیا ہے۔ تاہم نواز شریف چاہیں یا نہ چاہیں انہیں چوہدری نثار کی ناراضگی کو دور کرنا ہوگا۔