پاکستان

بلوچ حقوق کی جدوجہد اور نواب مری

خیربخش مری پاکستان میں وفاقی طرز حکومت کے حامی قوم پرستوں کی نمائندہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما بھی رہے۔

کراچی : بلوچ قوم پرست رہنما اور بزرگ سیاستدان نواب خیر بخش مری مرحوم نے جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری اور وہ انتہائی مشکل حالات میں بھی ایک بلوچ وطن کے خواب سے دستبردار نہیں ہوئے۔

طویل علالت کے بعد منگل کی رات کو کراچی میں انتقال کرجانے والے خیر بخش مری فروی 1928ءکوبلوچستان کے ضلع کوہلو میں صوبے کے ایک انتہائی بااثر سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی پھر اس کے بعد کراچی میں زیر تعلیم رہنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلے گئے۔

نواب خیر بخش مری کی شہرت ایک پیدائشی قوم پرست کی ہے، انہوں نے آغاز ہی سے ان رہنماؤں کو اپنا رول ماڈل بنایا جنہوں نے1947ء میں بلوچستان کی پاکستان یا ہندوستان میں شمولیت کی مخالفت کی تھی۔

ان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1960ء کی دہائی کے آغاز میں شروع ہوتا ہے جب بلوچوں نے اپنے ایک نوے سالہ سردار نوروز خان سے بدسلوکی کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔

تنازعے کا آغاز 10 اکتوبر 1958 ء کو ہواتھا جب آرمی نے وادھ کے مقام پر سردار نوروز خان کے خلاف آپریشن کیا۔

اس تصادم کا انجام آخر کار فوج اور بلوچ عسکریت پسندوں کے درمیان مذاکرات پر ہوا لیکن نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو جنگ سے واپسی پر گرفتار کرلیا گیا، سردار نوروز کوہلو کی جیل میں قید کے دوران انتقال کرگئے جبکہ ان کے بیٹوں اور 5 دیگر افراد کو پھانسی دے دی گئی۔

اس ایک واقعے نے ایسے اثرات مرتب کئے ہیں جن سے بلوچستان کبھی باہر نکل نہیں سکا۔

سن 1960 کے دوران انتظامیہ نے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب کے حکم پر نواب خیر بخش مری کے پھلوں کے باغات کو تباہ کردیا۔

خیر بخش مری نے 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی،اس وقت ون یونٹ کا خاتمہ کرکے بلوچستان کوایک صوبے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔

نواب خیر بخش مری نے 1973ء کے آئین پر دستخظ کرنے سے انکار کردیا تھا کیوں کی ان کا مؤقف تھا کہ دستور میں صوبائی خود مختاری سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔

انہوں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے صوبائی خود مختاری کے لئے آئندہ ترمیم کی یقین دہانی پر بھی شکوک کا اظہا رکیا۔

ایک اور اہم بلوچ سیاستدان غوث بخش بزنجو مرحوم نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے مسودے پر دستخط کردیئے،تاہم خیر بخش مری کے خدشات 2010ء میں جا کر اٹھارہویں ترمیم کی صورت میں ختم ہوئے۔

پانچ سال قبل ایک ٹی وی انٹریو میں نواب خیر بخش مری نے کہا تھا کہ وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ آئین کو بغیر کسی مزاحمت کے منظور ہونے دینا ان کے گناہوں میں شامل ہے۔

خیر بخش مری اپنے دوستوں اور دشمنوں کے لئے ہمیشہ ایک معمہ رہے، بعض افراد کے لئے وہ ایک مغرور بلوچ سردار تھے تو دوسری طرف ان کی پہچان ایک نرم مزاج شخص کی تھی۔

وہ پاکستان میں وفاقی طرز حکومت کے حامی قوم پرستوں کی نمائندہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما بھی تھے اس کے باوجود وہ آخرعمر تک ایک سخت گیر بلوچ رہنما کے طور پر جانے جاتے رہے اور کبھی بھی ایک علیحدہ بلوچ ریاست کے قیام کے خواب سے دستبردار نہیں ہوئے۔

سن 1975ء میں وفاقی حکومت نے حیدر آباد سازش کیس کے الزام میں نیپ پر پابندی عائد کرکے اس کی مرکزی قیادت کو حیدر آباد جیل میں قید کردیا،1977ء میں جنرل ضیاء نےاقتدارپر قبضہ کیا تو انہوں نے غوث بخش بزنجو اور دیگر رہنماؤں کو جیل سے رہا کردیا تاہم بزنجو مرحوم نے خیر بخش مری کی رہائی تک جیل سے رہا ہونے سے انکار کردیا، جس پر ان کی رہائی عمل میں آئی۔

جیل سے رہائی کے بعد نواب مری نے افغانستان جلا وطن ہونے سے قبل برطانیہ اور فرانس میں عارضی طور پر قیام کیا جہاں سے انہوں نے بلوچوں کو اپنے ساتھ جدو جہد کی دعوت دی جس پر ان کے ساتھ بلوچ قبائلیوں نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔

1990ء کے آغاز میں جب افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ صدر نجیب اللہ کی حکومت کا زوال آیا تو نواب خیر بخش واپس پاکستان آگئے،سن 2000ء تک انہوں نے خاموشی کے ساتھ زندگی گزاری ،جسٹس نواز مری کیس میں گرفتاری کے بعد وہ ایک بار پھر منظر عام پر آئےتاہم انہوں نے خاموشی برقرار رکھی ۔

البتہ ان کے بیٹے بالاچ مری اس دوران علیحدگی پسند بلوچوں میں ایک اہم رہنما کے طور پر سامنے آئے جوکہ بعد ازاں ایک فوجی جھڑپ میں ہلاک گئے۔

نواب خیر بخش مری آخر عمر تک علیحدگی پسند اور ایک کمیونسٹ قوم پرست نظریات پر کاربند رہے۔ وہ مختلف ممالک کے ریڈیو پروگرام سننا پسند کرتے تھے،اس کے علاوہ انہیں جنگلی حیات سے بھی محبت تھی۔

آخر عمر میں وہ خرابی صحت کی وجہ سے سیاسی معاملات سے دور تھے تاہم ان کے بیانات کو مقامی اور عالمی میڈیا میں نمایاں جگہ ملتی تھی۔