پامال کلیاں
مولانا قیامت کب آئے گی؟جب مچھر مر جائے گا اور گائے بے خوف ہو جائے گی!
مچھر کب مرے گا؟ اور گائے کب بے خوف ہو گی؟جب سورج مغرب سے نکلے گا!
سورج مغرب سے کب نکلے گا؟جب مُرغی بانگ دے گی اور مُرغا گونگا ہو جائے گا!!!
اور مرغی بانگ کب دے گی؟جب کلام کرنے والے چُپ ہو جایں گے اور جوتے کے تسمے باندھے گے!
اور کلام کرنے والے تسمے کب باندھیں گے؟جب حاکم ظالم ہو جائیں گے اور رعایا خاک چاٹے گی!!
برسوں پہلے پڑھی انتظار حسین کی کتاب 'بستی' کی کچھ لائینیں یاد گئیں۔ رعایا تو جانے کب سے خاک کے ساتھ اپنا ہی خون چاٹ رہی ہے۔ مگر جانے قیامت کب آئے گی!
مگر نہیں، قیامت تو آتی ہے، ہر روز ہر دن ہی آتی ہے! ہر اُس گھڑی آتی ہے جب بھی کوئی معصوم کلی پامال ہوتی ہے!! ہر وہ لمحہ قیامت ہوتا ہے جب کوئی معصوم اپنی معصومیت چھن جانے کے بعد اس کو اپنی قسمت سمجھ کربار بار پامال ہوتا رہتا ہے!
بچے چاہے پاکستان کے ہوں یا ہندوستان کے، امریکا کے ہوں یا اسرئیل کے۔ ان کی معصومیت کو بلا امتیاز فرشتوں سے ملایا جاتا ہے! اور بدقسمتی سے ساری دُنیا میں ہی بچوں کو پامال بھی کیا جاتا ہے!
یہ معصوم فرشتے کہیں بیمار ذہن لوگوں کی جنسی تسکین کا زریعہ ہیں تو کہیں بلیو فلم کے کاروبار میں استعمال کئے جا رہے ہیں۔ کہیں بچے اونٹ کی ریس میں رسیوں سے باندھ کر دوڑائے جا رہے ہیں تو کہیں پر بیگار میں پیلے جا رہے ہیں.
جن نازک انگلیوں کو قلم پکڑ کر ملک و قوم کی ترقی کا حصہ بننا تھا وہاں ان نازک انگلیوں سے قالین اور فٹ بال بنوا کر پوری دنیا میں آرٹ کے نام پر دھوم مچائی جا رہی ہے.
بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ گو کہ بات ختم ہو جاتی ہے اور زمانہ آگے نکل جاتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں نہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ختم ہو رہے ہیں نہ ان کی پامالی چاہے وہ کسی بھی انداز میں ہو۔ لاہور کی پانچ سالہ سنبل ہو یا کراچی کا دس سالہ لیاقت یا کڈھن کی دس سالہ نیانی مقدّس یا پھر کمالیہ کی گیارہ سالہ نابینا بچی جس کو بارہ انسانی درندوں نے ہوس کا نشانہ بنایا۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف امریکا میں ہر سال 3.6 ملین بچے کسی نا کسی انداز میں مُتاثر ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو سالانہ چار ہزار کے قریب بچوں کو جنسی زیادتی شکار بنایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف وہ اعداد و شُمار ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں، ہزاروں تو ایسے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں میں لڑکیاں 73 اور لڑکے 27 ہوتے ہیں جن کی عمریں 4-15 سال کے درمیان ہوتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق نوے فیصد جنسی زیادتی کا شکار بچے اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں ہی پامال ہوئے ہوتے ہیں۔
وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے انسان انسانیت سے حیوانیت کے درجے پر آ جاتا ہے۔ آپ کسی سے بھی دریافت کریں تو وہ فوراً اس کا سارا ملبہ میڈیا اور بڑھتی ہوئی فحاشی پر ڈال دیتا ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی اور ہر قسم کی پامالی کے بے شمار عوامل ہیں اور بہت سی قسمیں مگر سب سے زیادہ جنسی پامالی ہی اخبارات اور نیوز چینل کی اسکرین پر نظر آتی ہے۔ ہم مرچ مصالحہ لگا کر جنسی زیادتی کا شکار بچے کو خبر بنا کر اس کے جذبات اور سوچ کو ایک دم سے بالغ کر دیتے ہیں۔
بہرحال، معصوم بچوں کی پامالی وہ تلخ حقیقت ہے جس سے سب واقف ہیں۔ مگر کچھ ایسی بھی زیادتیاں ہیں جو ہم خود اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا.
ہم اپنے بچوں کے ساتھ کیا کچھ کرتے ہیں؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں؛
جذباتی بلیک میل -- Psychological Abuse
سو جاؤ!! ورنہ اللہ بابا آ جائے گا! کالی مائی آ جائے گی۔ یہ آ جائے گا وہ آ جائے گا۔۔۔ یہ وہ جملہ ہے جو کم و پیش پاکستان اور انڈیا کے نوے فیصد والدین اپنے بچوں کو سُلاتے وقت بولتے ہیں. بس کسی بھی طرح بچہ سو جائے! تاکہ والدین سکون سے سو سکیں یا پھر کچھ کام کر سکیں۔ مگر انجانے میں یہ نہیں سوچتے کے وہ اپنے معصوم بچے کے دل میں خوف بٹھا رہے ہیں جو اس کی خود اعتمادی کو کھا جائے گا۔
صرف یہی نہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی میں اپنے بچوں کو مختلف حیلے بہانوں سے ڈرانا یا ان کو لالچ دینا کہ یہ کرو گے تو چاکلیٹ ملے گی۔ شور کرو گے تو پٹائی لگے گی یہ سب بھی بچوں کو زہنی طور پر پامال کرنے کے زُمرے میں آتا ہے۔ اور بہت آگے جا کر بچے کی نفسیایت پر اس کے بہت برے اثرات پڑتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں نفسیاتی پامالی یا Psychological Abuse کے پاکستان میں کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اگر ہوتے تو سو فیصد ہی ہوتے۔ پھر بچوں کو نظر انداز کرنا ایک دوسرے پر فوقیت دینے یہ سب ان کی شخصیت کے بگاڑ میں ایک اہم کردار کرتا ہے۔
بچوں کی پٹائی -- Physical Abuse
پٹاخ! سرخ ہوتے گال اور سُلگتی کمر۔ تقریباً ہر گھر میں بچہ کم از کم ایک بار تو ضرور ہی اپنے گھر یا اسکول میں مار کھاتا ہے۔ بلکہ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جب بچے کو ٹیوشن یا اسکول لگاتے ہیں ہیں تو بولتے ہیں ہڈیاں ہماری گوشت آپ کا۔ اور پھر بھائی ہماری اپنی روایات ہیں۔ بچوں کو دبا کے رکھنا ہماری روایات میں سے ہے۔ یہ محاورہ تو آپ نے سُنا ہی ہو گا کہ "کھلاو سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے".
معاشرتی پامالی -- Social Abuse
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی مُیسر نہیں انساں ہونا۔
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں۔ مُہذب قومیں اپنے اس انمول خزانے کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس کی نشوونما میں بہترین دماغ اور کثیر بجٹ لگاتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ہم لوگ آج تک اجتماعی طور پر بچوں کو ایک اثاثے کے طور پر نہیں اپنا سکے۔ ہم نے بچوں کو بھی اسٹیٹس کے خانوں میں بانٹ رکھا ہے، امیر بچے، غریب بچے، باس کے بچے، دوست کے بچے، کام والے بچے، گلی میں آوارہ گھومنے والے بچے، سگنل پر زبردستی آپ کی اور ہماری گاڑی کا شیشہ صاف کرتے اور گالیاں کھاتے بچے، بھیک مانگتے بچے، چور بچے، بدمعاش بچے، کام والی ماسی کے بچے، بھوکے بچے، ننگے بچے، اسکول جاتے بچے اور اسکول کے باہر حسرت سے تکتے بچے!
ہم لوگوں نے اپنے اس اثاثے کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ سیاسی لوگوں نے اپنی طرح سے اور عام لوگوں نے اپنے طریقے سے۔ ہمارے بچے مرتے ہیں سسکتے ہیں مگر جب تک ہم جاگتے ہیں، بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ بہت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ بہ حثیت قوم ہم اپنے بچوں کی نا حفاظت کر سکے ہیں نا ان کا خیال!
لکھنا تو اور بہت کچھ تھا مگر ایک کالم اس سے زیادہ الفاظ اور ہمارا ضمیر اس کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ چلتے چلتے بتاتا چلوں کے تیس فیصد جنسی پامالی کا شکار بچے بعد میں اپنے بچوں کو بھی کسی نا کسی انداز سے پامال کرتے ہیں۔ عادی مجرموں دہشت گردوں میں بیس فیصد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی نا کسی طرح اپنے بچپن میں پامال ہوئے ہوتے ہیں! پامال کلیاں اگر کھل بھی جائیں تو ان میں خوشبو اور نرمی باقی نہیں رہتی۔ اپنے ملک کو اگر کچھ دے سکتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے اس قومی اثاثے کی حفاظت کریں!
چلتے چلتے
ایک دوست کے کہنے پر اسی موضوع پر ایک پروگرام 'آغازِ سفر' دیکھا۔ ایک اچھی کاوش یقیناً اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اشو کو ہر فورم پر اُٹھایا جائے۔ اور حسنین جیسے لاکھوں بچوں کا مستقبل بچایا جائے۔ ہمارے اسکولوں مدرسوں میں پڑھنے والے کروڑوں بچوں کو پامال ہونے سے بچایا جائے۔
گلیوں میں پھرنے والے لاوارث بچوں (اسٹریٹ چلڈرن) کے مسائل تو بیاں کرنے سے بھی باہر ہیں مگر اب ان پر بات کرنی ہوگی۔ ہمیں اب بات کرنی ہو گی اور اس سچ کا سامنا کرنا ہو گا جس کے سامنے سے ہم کتراتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے اب سوچ بدلنے کی۔ ہمیں ضرورت ہے پاکستان کے مستقبل کو بچانے کی۔ ہمیں ضرورت ہے اپنے بچوں کو اس بات سے باخبر کرنے کی کہ کس سے کس طریقے سے ملنا ہے۔ اور ان کی حوصلہ آفزائی کی کہ وہ ہر بات اپنے ماں باپ سے کریں اور ان کو بتائیں۔ اب ضرورت ہے کہ حکومت بھی اس حوالے سے ٹھوس اقدام کرے مگر سب سے زیادہ ضررورت ہے ہم سب کو اپنی سوچ بدلنے کی۔
منصور احمد خان صحافت کے شعبے سےتعلق رکھتے ہیں اور ڈان نیوز ٹی وی سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔