پاکستان

معین اختر، تمھیں ہم نے بھلا دیا

اس جیسے فنکار روز روز پیدا نہیں ہوتے، وہ خود بھی کافی سنجیدہ مزاج انسان تھے اور اس بات کا وہ خود بھی اعتراف کرتے تھے۔

آج 22 اپریل 2014 ہے، آج کے دن تین سال پہلے معین اختر-- اداکار، کامیڈین، ٹاک شو میزبان -- ہم سے رخصت ہوا تھا۔

ابھی اس بات کو رہنے دیتے ہیں کہ اسے ہم نے یاد رکھا یا بھلا دیا، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری زندگیوں کو کس کس طرح سرشار کر گیا۔

معین اخترکو ہم نے سب سے پہلے ایک اسٹیج کامیڈین کے طور پر جانا، وہ ہمیں مزاح سے بھرپور لطیفے سناتا، لوگوں کے بھانت بھانت کے لہجوں کی نقل کرتا اور ہمیں گدگداتا—

خاصی کم عمری میں ہی اس کا چرچا پورے ملک میں ہوگیا، یہ وہ دور تھا جب ٹی وی گھر گھر میں آن نہیں دھمکا تھا، اس کے باوجود اس بے پناہ صلاحتیوں والے نوجوان کو پورا ملک جان چکا تھا-

کامیڈی کے ساتھ ساتھ اس نے اسٹیج پر مختلف پروگراموں کی میزبانی بھی شروع کر دی اور اپنے صاف ستھرے تلفّظ اور بذلہ سنجی کی وجہ سے اپنا مقام بناتا گیا۔

اس کے بعد معین نے اداکاری کے میدان میں قدم رکھا اور یوں لگا کہ جیسے پاکستان میں اداکاری کو نئی سمت دی جا رہی ہو۔

وہ طویل دورانیہ کے کھیل 'روزی' میں ایک ایسے مرد کا کردار ہو جسے تلاش معاش کے سبب ایک عورت کا روپ دھارنا پڑے یا 'ہاف پلیٹ' کا بوڑھا شاعر جو اپنے ماضی سے چھٹکارہ بھی چاہتا ہے اور اس سے رشتہ توڑنا بھی نہیں چاہتا، معین نے ہر کردار اس کمال سے نبھایا جیسے کہ وہ اسی کے لتے لکھے گئے ہوں۔

مگر معین صرف اتنے پر اکتفا کرنے والا کب تھا، اسے اداکاری کی حدوں کو ابھی مزید کھینچنا تھا، وہ بھی اپنی شرائط پر، سو اس نے انور مقصود کے قلم کی نوک پر چلنے کی ٹھانی.

اور پھر 'اسٹوڈیو ڈھائی'، 'اسٹوڈیو پونےتین' اور 'لوزٹاک' میں اتنے سارے کردار کیے کہ دیکھنے والے نہ صرف خوشگوار حیرت کا شکار ہوئے بلکہ اس کی اداکاری کو دوسرے اداکاروں کے لیے پیمانہ بنا ڈالا۔

معین اختر کی تیسری اور شاندار فنکارانہ جہت ان کا ٹی وی ٹاک شوز کی عمدہ میزبانی اور مشہور لوگوں کے انٹرویوز کرنا تھا۔

انہوں نے 'شو ٹائم' اور 'یس سر، نو سر' جیسے پروگرام انتہائی مہارت اور قاعدے سے ہوسٹ کیے اور اپنے آپ کو ملک کا صف اوّل کا میزبان منوایا۔

اور پھر برصغیر کے نامور اداکار دلیپ کمار کا یہ کہنا کے پاکستان سے اگر مجھے کوئی انٹرویو کرے تو وہ معین اختر ہی ہو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے فن کا لوہا ملک کی سرحدوں کے پار بھی مانا جاتا تھا۔

مگر یہ سب باتیں ہم کیوں کر رہے ہیں؟ ہم نے کون سا معین اختر کی چیدہ چیدہ پرفارمنس کو آج کی نوجوان نسل کے اداکاروں کے لیے بار بار ٹی وی چینلز پر چلایا۔

ہم نے کب ان کی یاد میں کوئی اسپیشل پروگرام ترتیب دیا، ہم نے کب انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انہوں نے ہماری زندگیوں پر کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی انداز سے اثرڈالا؟

ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جن کی نظر سے پہاڑ اوجھل ہو جائے تو پہاڑ پہاڑ نہیں رہتا فقط ایک معمولی سی یاد بن کر رہ جاتا ہے جس کا بھلانا ہمیں کسی بھی قسم کے تاسف کا شکار نہیں کرتا۔