پاکستان

حامد میر پر حملہ: آئی ایس آئی سے تفتیش میں تعاون کرنے کا مطالبہ

سینیٹ کے اجلاس میں حامد میر پر حملے کے خلاف متفقہ طور پر قرارداد بھی منظور کی گئی۔

اسلام آباد: سینیٹرز کی جانب سے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر زور دیا گیا کہ وہ سینیئر صحافی حامد میر پر حملے اور جبری گمشدگی کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے ان معاملات سے اپنا نام صاف کروائے۔

گزشتہ روز پیر کو پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں اراکین نے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے کردار اور ہفتے کے روز کراچی میں حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد ان کے اہلِ خانہ کی جانب سے آئی ایس آئی کے چیف لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام پر عائد الزامات اور اس کے بعد کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔

سینیٹ کے ڈپٹی اسپیکر صابر بلوچ نے ایوان کی معمول کی کارروائی کو معطل کرتے ہوئے اراکین کو اجازت دی کہ وہ اس معاملے پر بحث کریں۔

اس موقع پر حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سینیٹرز نے آئی ایس آئی پر عائد الزامات پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر زور دیا کہ وہ اس واقعہ کی تفتیش کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے یہ ثابت کرے کہ اس حملے میں آئی ایس آئی ملوث نہیں ہے۔

ایوان میں قائدِ حزبِ اختلاف اعتراز احسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ خود ذاتی طور پر ماضی میں آئی ایس آئی کی سیاسی مداخلت پر تنقید کرتے رہے ہیں، لیکن ان کے خیال میں کسی کو بھی اس دارے پر الزامات عائد نہیں کرنے چاہیئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی تاریخ متنوع رہی ہے۔

“اس ادارے نے افغان جہاد کی بنیاد رکھی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اصغر خان کیس ( انتخبات میں دھاندلی)، آپریشن مڈنائٹ جیکل اور 1989ء میں جلال آباد آپریشن میں کی منصوبہ بندی میں آئی ایس آئی کی مداخلت ثابت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپریشن مڈنائٹ جیکل کے وقت میں وزیر داخلہ تھا اور میں نے خود آئی ایس آئی کی سرپرستی کی تھی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایک جوڈیشل کمیشن واقعہ کی تفتیش مکمل نہیں کرلیتا کسی کو بھی پورے ادارے کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔

اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کی نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو چاہیے کہ وہ ان الزامات کو ایک چیلنج کے طور پر لے اور تفتیشی عمل میں اپنی مدد کا دائرہ وسیع کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں سے اپنا نام صاف کروائے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے حاجی عدیل نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں آئی ایس آئی نے شدت پسندوں کو تربیت دے کر افغانستان اور کشمیر میں بھیجا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کو چاہئیے کہ وہ حامد میر کی فیملی کی جانب سے آئی ایس آئی پر عائد الزامات کی مکمل تفتیش کرے۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک موقع ہے جب آئی ایس آئی تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے سکتی ہے'۔

ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی نے حامد میر پر حملے کو سندھ حکومت، ایجنسیوں اور پولیس کی ناکامی قرار دیا۔

ایوان میں موجود جمعیت علمائے اسلام فضل کے حافظ حمیداللہ کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب پہلے ہی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی آمد کی وجہ سے سیکیورٹی سخت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی اور فوج پر تنقید بند ہونی چاہیے، کیونکہ یہ ریاست کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا دفاع کرے۔

اس موقع پر حامد میر پر قاتلانہ حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایوان میں ایک متفقہ قرار دار منظور کی گئی۔

قرار دار میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ملک میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

اجلاس کی ابتداء میں میڈیا کے نمائندوں نے حامد میر پر حملے کے خلاف ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ بھی کیا۔

تاہم حکومتی اور اپوزیشن دونوں نشستوں کے اراکین کی یقین دہانی کے بعد وہ دوبارہ ایوان میں شریک ہوگئے۔